نظم (ترانۂ ہندی
سارے جہاں سے اچھا یا ترانۂ ہندی اردو زبان میں لکھی گئی ایک نظم ہے جو تحریک آزادی کے دوران میں برطانوی راج کے خلاف احتجاج کی علامت بنی اور جسے آج بھی عقیدت کے گیت کے طور پر ہندوستان میں گایا جاتا ہے۔
اسے غیر رسمی طور پر بھارت کے قومی گیت کا درجہ حاصل ہے۔
اس نظم کو مشہور شاعر محمد اقبال نے 1905ء میں لکھا تھا اور سب سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ کر سنایا تھا۔ یہ اقبال کے پہلے مجموعۂ کلام بانگ درا میں شامل ہے۔ اس وقت اقبال لاہور کے گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد تھے۔ انھیں لالہ ہردیال نے ایک اجلاس کی صدارت کرنے کی دعوت دی۔
اقبال نے تقریر کرنے کی بجائے یہ نظم پورے جوش سے گاكر سنائی۔
یہ نظم ہندوستان کی تعریف میں لکھی گئی ہے اور الگ الگ مذاہب کے لوگوں کے درمیان میں بھائی چارے کو بڑھاوا دیتی ہے۔

1950ء کی دہائی میں ستار نواز پنڈت روی شنکر نے اسے سُر سے آہنگ کر دیا-

تحریک آزادی کے دوران یہ سب سے مقبول گیت تھا اور آج بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ لیکن اسکے خالق علامہ اقبال کو شاید بھلا دیا گيا ہے۔
’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا‘
ہندوستان کی کوئی فوجی تقریب ہو یا حب الوطنی کا کوئی جشن اس گیت کے بغیر وہ ادھورے رہتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ انیس سو چار میں جب ڈاکٹر اقبال لاہور کے ایک کالج میں لیکچرار تھے تو اس وقت ان کے ایک شاگرد لالہ ہردیال نے انہیں ایک جلسے کی صدارت کے لیے دعوت دی تھی۔ توقع کے بر خلاف ڈاکٹر اقبال نے اس جلسے میں ایک لمبی سیاسی تقریر کے بجائے یہ ترانہ پیش کیا تھا۔
دورحاضر کے مشہور اردو کے ناقد شمش الرحمن فاروقی کا کہنا ہے کہ یہ گیت جتنا سادہ ہے اس سے کہیں زیادہ دلکش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس ترانے میں اقبال نے ملک کی ثقافت تہذیب اور عظمت سبھی کو پیش کردیا ہے۔ اسکی جامعیت اسکی سب سے بڑی خوبی ہے۔‘
تحریک آزادی کے ایک اور شاعر حسرت موہانی نے اس ترانے پر یہ کہ کر تنقید کی تھی کہ اس میں نغمگی کی کمی ہے، لیکن مسٹر فاروقی کی رائے بالکل مختلف ہے۔
’اقبال کے کلام میں بلا کا موسیقی کا آہنگ ہے۔ سارے جہاں سے اچھا کی زبان سادہ ہے لیکن نغمگی بھر پور ہے۔ اسکی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ترانے کی لفظی و معنوی مٹھاس ہے۔‘
ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ گیت ہندوستان کا قومی ترانہ نہ بن سکا۔ مسٹر فاروقی کہتے ہیں کہ ’اس زمانے میں رابندرا ناتھ ٹیگور کی شخصیت افق پر چھائی ہوئی تھی۔ دوسروں کے مقابلے وہ بڑے فنکار تھے اسی لیے انکے گیت کو ’جن گڑ من ادھینائیک جیۓ ہے‘ قومی ترانے کا درجہ دیا گیا۔
ملکی عظمت اور اسکی خوبیوں کو بیان کرنے کے لیے ڈاکٹر اقبال کے اس گیت کو ہر موقع پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا خود اسکے خالق کو بھلا دیا گیا ہے؟۔ اردو کے ادیب اور پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ اس ترانے کی وجہ سے اقبال سے بھی یادیں وابستہ ہیں۔
علامہ اقبال اور مہاتما گاندھی کا پیغام مشترکہ طور پر اس ملک میں بسنے والے مختلف فرقوں اور طبقوں میں آپسی میل ملاپ اور بھائی چارے کو فروغ دینا تھا۔ سرزمین ہند کے تعلق سے اقبال کے جذبات کا مظاہرہ ان کے اسی “نغمۂ عشق” ‘ترانۂ ہندی’ سے ہوتا ہے۔ جو اپنی مادر وطن کے لیے ان کی دیوانہ وار محبت کو لطیف و نازک رنگ وآہنگ میں ظاہر کرتا ہے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا
اس نظم کے متعلق بابائے قوم مہاتما گاندھی نے رسالہ “جوہر” (دہلی) 1938 کے خصوصی شمارہ “اقبال نمبر” کے لیے ایڈیٹر کے نام ایک خط اردو میں خود اپنے ہاتھ سے لکھا اور اس پر اردو میں دستخط کر کے علامہ محترم سے اپنی عقیدت اور اس نظم “ترانۂ ہندی” کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی:
“مورخہ: 9/ جون 1938ء
بھائی محمد حسین!
آپ کا خط ملا۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کے بارے میں کیا لکھوں؟ لیکن اتنا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ جب ان کی مشہور نظم “ہندوستان ہمارا” پڑھی تو میرا دل ابھر آیا۔ اور یارودہ جیل میں تو سیکڑوں بار میں نے اس نظم کو گایا ہوگا۔ اس نظم کے الفاظ مجھے بہت ہی میٹھے لگے اور یہ خط لکھتا ہوں تب بھی وہ نظم میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔
آپ کا:
مو، ک، گاندھی” *

مہاتما گاندھی کے اس خط کے ذریعے اقبال کی نظم ترانہ ہندی کے بارے میں ان کی دلی کیفیت کو بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے؛ گویا اقبال کی یہ نظم انہیں تحریک آزادی کی جدوجہد کےلیےروحانی غذا فراہم کرتی اسی لیے جسے وہ ہمیشہ گنگناتے رہے۔

خود وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنی پہلی کانفرنس میں ملک کی عظمت بیان کرنے کے لیے اسی ترانے کے اشعار پڑھے تھے۔
جب اندرا گاندھی نے بھارت کے پہلے خلا باز راکیش شرما سے پوچھا کہ خلا سے بھارت کیسا دکھائی دیتا ہے، تو شرما نے اس نظم کا پہلا مصرع سنایا۔


اس کا وڈیو ہم کو دیکھیں:-
ترانہ ہندی
اردو
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبليں ہيں اس کي، يہ گلستاں ہمارا
غربت ميں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن ميں
سمجھو وہيں ہميں بھي، دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا، ہمسايہ آسماں کا
وہ سنتري ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
گودي ميں کھيلتي ہيں اس کي ہزاروں ندياں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا
اے آب رود گنگا، وہ دن ہيں ياد تجھ کو؟
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مذہب نہيں سکھاتا آپس ميں بير رکھنا
ہندي ہيں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
يونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقي نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستي مٹتي نہيں ہماري
صديوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
اقبال! کوئي محرم اپنا نہيں جہاں ميں
معلوم کيا کسي کو درد نہاں ہمارا
ہندی
सारे जहाँ से अच्छा, हिन्दोस्ताँ हमारा ।
हम बुलबुलें हैं इसकी, यह गुलिसताँ हमारा ।।
ग़ुरबत में हों अगर हम, रहता है दिल वतन में ।
समझो वहीं हमें भी, दिल हो जहाँ हमारा ।। सारे...
परबत वो सबसे ऊँचा, हमसाया आसमाँ का ।
वो संतरी हमारा, वो पासबाँ हमारा ।। सारे...
गोदी में खेलती हैं, उसकी हज़ारों नदियाँ ।
गुलशन है जिनके दम से, रश्क-ए-जिनाँ हमारा ।।सारे....
ऐ आब-ए-रूद-ए-गंगा! वो दिन है याद तुझको ।
उतरा तेरे किनारे, जब कारवाँ हमारा ।। सारे...
मज़हब नहीं सिखाता, आपस में बैर रखना ।
हिन्दी हैं हम वतन हैं, हिन्दोस्ताँ हमारा ।। सारे...
यूनान-ओ-मिस्र-ओ-रूमा, सब मिट गए जहाँ से ।
अब तक मगर है बाक़ी, नाम-ओ-निशाँ हमारा ।।सारे...
कुछ बात है कि हस्ती, मिटती नहीं हमारी ।
सदियों रहा है दुश्मन, दौर-ए-ज़माँ हमारा ।। सारे...
'इक़बाल' कोई महरम, अपना नहीं जहाँ में ।
मालूम क्या किसी को, दर्द-ए-निहाँ हमारा ।। सारे...
ENGLISH
Sāre jahāṉ se acchā, Hindositāṉ[4] hamārā
Ham bulbuleṉ haiṉ is kī, yih gulsitāṉ[4] hamārā
G̱ẖurbat meṉ hoṉ agar ham, rahtā hai dil wat̤an meṉ
Samjho wuhīṉ hameṉ bhī dil ho jahāṉ hamārā
Parbat wuh sab se ūṉchā, hamsāyah āsmāṉ kā
Wuh santarī hamārā, wuh pāsbāṉ hamārā
Godī meṉ kheltī haiṉ is kī hazāroṉ nadiyāṉ
Guls̱ẖan hai jin ke dam se ras̱ẖk-i janāṉ hamārā
Ai āb-i rūd-i Gangā! wuh din haiṉ yād tujh ko?
Utrā tire[5] kināre jab kārwāṉ hamārā
Maẕhab nahīṉ sikhātā āpas meṉ bair rakhnā
Hindī haiṉ ham, wat̤an hai Hindositāṉ hamārā
Yūnān o-Miṣr o-Rūmā, sab miṭ ga'e jahāṉ se
Ab tak magar hai bāqī, nām o-nis̱ẖaṉ hamārā
Kuch bāt hai kih hastī, miṭtī nahīṉ hamārī
Ṣadiyoṉ rahā hai dus̱ẖman daur-i zamāṉ hamārā
Iqbāl! ko'ī maḥram apnā nahīṉ jahāṉ meṉ
Maʿlūm kyā kisī ko dard-i nihāṉ hamārā!
English Translation
"سارےجہاں سے اچھا "کی انگریزی ترجمے :-
Better than the entire world, is our Hind,
We are its nightingales, and it (is) our garden abode
If we are in an alien place, the heart remains in the homeland,
Know us to be only there where our heart is.
That tallest mountain, that shade-sharer of the sky,
It (is) our sentry, it (is) our watchman
In its lap where frolic thousands of rivers,
Whose vitality makes our garden the envy of Paradise.
O the flowing waters of the Ganges, do you remember that day
When our caravan first disembarked on your waterfront?
Religion does not teach us to bear animosity among ourselves
We are of Hind, our homeland is Hindustan.
In a world in which ancient Greece, Egypt, and Rome have all vanished
Our own attributes (name and sign) live on today.
There is something about our existence for it doesn't get wiped
Even though, for centuries, the time-cycle of the world has been our enemy.
Iqbal! We have no confidant in this world

ہم کو ترانے ہندی کے گانے کی ویڈیو کو بھارتی ڈاک ٹکٹوں کی تصاویر کے ساتھ دیکھیں
ہم کو ترانے ہندی کے گانے کی ویڈیو بھارتی ڈاک ٹکٹوں کی تصاویر کے ساتھ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں