بدھ، 4 مئی، 2022

محمد حسن

             پروفیسر محمد حسن:-


     پروفیسر محمد حسن کا شمار ہندوستان کے مشہور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ محمد حسن مراد آباد ( نواب پورہ ) میں کیم جولائی 1926 کو پیدا ہوۓ ۔ والد کا نام محمد الطاف ، والدہ کا نام رضوان فاطمہ تھا ۔ ابتدائی تعلیم مرادآ باد کے ایک ہائی سکول سے حاصل کی ۔ 1934 میں میٹرک پاس کیا اور 1939 میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا ۔ 1941 میں تعلیم کی غرض سے لکھنو چلے گئے ۔ 
                    لکھنو یو نیورسٹی سے ایم۔اے کرنے کے بعد وہیں سے ایل۔ایل۔بی اور پی۔ایچ ۔ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ لکھنو یو نیورسٹی میں عارضی طور پر درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دس سال تک لکچر ر رہے ۔ اس کے علاوہ کئی یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر کام کیا ۔
                 محمد حسن ایک اچھے شاعر ، افسانہ نگار ، تخلق کار ، نقاد اور صحافی بھی تھے ۔ انہوں نے 75 کتابوں کی تصنیف ( اور ادارت ) کی ہے ۔ کئی ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ شعری مجموعہ " زنجیر نغمہ " کے نام سے شائع ہوا ۔ آل انڈیا ریڈیو سمیت دوسرے ریڈیو سٹیشنوں کے لئے ڈرامے اور فیچر ز لکھتے رہے ۔ ان کا پہلا فیچر “ یہ لکھنو ہے “ کے نام سے نشر ہوا تو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔ یہاں سے حسن کو ڈرامے لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔اور وہ با قاعدہ طور پر ڈرامے لکھنے لگے ۔
                      محمد حسن 24 اپریل 2010 ء میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ لیکن اردوادب کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
                       محمد حسن کا ایک ڈرامہ " کہرے کا چاند " 1968 میں شائع ہوا ، جس میں انہوں نے مرزا غالب کی حیات کو موضوع بنایا ہے۔اس کے علاوہ " نقش فریادی " اور " تماشہ اور تماشائی میں بھی غالب کو موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔ 1980 میں آپ کا ایک مشہور ڈرامہ " ضحاک " شائع ہوا ۔ یہ ہندوستان میں ایمر جنسی کا دور تھا ، لوگوں پر ظلم ہورہے تھے محمد حسن نے یہ ڈرامہ بطور احتجاج لکھا جس میں ظالم حکومت کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا ۔
         انعام :-  
                         محمد حسن کو مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا جس میں ہم سب غالب ڈراما ایوارڈ ، پریشد ایوارڈ ، بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ، یوپی اردو اکادمی ایوارڈ ، حیدر آباد ساہتیہ پریشد ایوارڈ ، دلی اردو اکادمی ایوارڈ ، مہاراشٹر اردو اکادمی ایوارڈ ، جواہر لال نہرو فیلو ایوارڈ شامل ہیں ۔
        تصانیف:-
                          ان کے منتخب ڈراموں کا پہلا مجموعہ " پیسہ اور پر چھائیں ادارہ " فروغ اردو لکھنوء " نے 1955 ء میں شائع کیا جس میں نو ڈرامے شامل تھے ۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے : ہے پیسہ اور پر چھائیں ، سرخ پر دے ، سونے کی زنجیریں ، نظیر اکبر آبادی ، نقش فریادی ، اکبر اعظم ، انسپکٹر جنرل ، حکم کی بیگم اور معمار اعظم۔پروفیسر محمد حسن کے ڈراموں کا دوسرا مجموعہ " میرے اسٹیج ڈرامے " 1969 ء میں شائع ہوا ۔ جس میں ریہرسل ، محل سرا ، میر تقی میر ، موم کے بت ، فٹ پاتھ کے شہزادے شامل ہیں ۔ آپ کے ڈراموں کا تیسرا مجموعہ 1994 میں " مور اور پنکھی “ کے نام سے منظر عام پر آیا ۔ جس میں شکست ، مور پکھی ، مولسری کے پھول ، پچ کازہر ، دارا شکوہ ، کچلا ہوا پھول ، اور خوابوں کا سودا گر و غیر شامل ہیں ۔
                   ڈرامہ ضحاک
                           ڈرامہ ضحاک یہ ڈرامہ ابتدائی چند صفحات ات کے علاوہ ایمر جنسی یعنی 1976 ء کے زمانے میں ہی لکھا گیا لیکن ایمر جنسی میں زبان بندی کی وجہ سے چپ نہ سکا ۔ ڈرامہ ضحاک پہلی بار عصری ادب شمارہ 47 48 میں 1977 کو چھپااور 1980 میں کتابی شکل میں شائع ہوا ۔ پروفیسر محمد حسن کہتے ہیں " ضحاک کی کہانی نئی نہیں ہے ضحاک کا پوراقصہ فردوسی کے شاہنامہ میں موجود ہے اور نثر و نظم میں بار بار بیان ہوا ہے اس میں نیا پن ہے تو اس سیاسی رمز بیت میں ہے جو ضحاک کے کردار کو میرے ڈرامے سے حاصل ہو گئی ۔ آپ کی معلومات کے لئے ایک بات بتاتا چلوں کہ شاہنامہ کا فارسی نثری خلاصہ " شمشیر خوانی " ہے رجب علی بیگ سرور نے اس کا ترجمہ " سرور سلطانی " کے عنوان سے اردو میں کیا اور یہی " سرور سلطانی " محمد حسن کاماخذ بنا ۔ چھ مناظر پر مشتمل یہ ڈرامہ ایک ڈرامہ کی روایت کی پیروی میں لکھا گیا ایک اہم اردو ڈراما ہے اس کا پلاٹ فردوسی کے شاہنامے سے چلی روایت کے ترجمے " سر ور سلطانی " سے ماخوذ ہے ڈاکٹر محمد حسن نے اس روایت کو ایمر جنسی کے دوران ملک میں جو مظالم ڈھائے گئے انہیں پیش کرنے کے لئے بڑی ہنر مندی سے ایپک ڈرامے کی صورت میں برتا ہے اس روایت کے ذریعے انہوں نے دو مقاصد حاصل کرنے کی کو شش کی ہے ایک یہ کہ ایمر جنسی کے دوران جو کچھ ہوا اسے علامتی انداز میں من و عن محفوظ کر لیا جاۓ اور دوسرے یہ کہ عوام کے دلوں میں یہ بات بٹھادی جاۓ کہ ہمارے سماجی مسائل کا حل صرف اور  صرف اشتراکیت میں ہے ۔
                 محمد حسن کا ڈراما انسانی بھیجوں پر زندہ رہنے والے شہنشاہ کی کہانی ہے اور یہاں انسانی ضمیروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے
                          ناقدین نے پروفیسر محمد حسن کے ڈرامے پر کئی طرح کے الزامات لگائے ہیں ۔اول یہ کہ ڈرامہ’’ ضحاک‘‘ اختر شیرانی کے ڈرامے’’ضحاک‘‘کا سرقہ ہے جس کا موصوف نے کہیں ذکر نہیں کیا ہے۔دوم یہ کہ اس ڈرامے میں پروفیسر محمد حسن نے احتجاج کے ساتھ اشتراکی نظریات کاپرچار کیا۔ان تمام تر الزامات کے باوجود اس ڈرامے کی عصری معنویت اور افادیت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔پروفیسر محمد حسن کے مطابق’’ضحاک محض ایک دور کا کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ زمان و مکان کے قیود توڑ تا ہوا آگے بڑھتا ہے۔‘‘ اوربقول گیان چند جین’’میں کہہ سکتا ہوں کہ اُردو کے تخلیقی ادب میں ایمر جنسی کے خلاف اتنا پر زور ،اتنا رچا ہوا اور ساری فضا پر چھایا ہوا احتجاج اور کہیں نہیں ملتا۔‘‘ ڈرامہ ’’ضحاک‘‘کے متن کی کساوٹ ،مکالمے اور سادہ اسلوب کی وجہ سے ہندوستان کی مختلف دانش گاہوں میں اس ڈرامے کو اپنے نصاب میں شامل کیا گیا۔نصابی ضرورت کے تحت ہی اس ڈرامے کو کتابی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی۔سب سے پہلے حیدرآباد سینٹرل یونی ورسٹی نے پروفیسر گیان چند جین کے مشورے پر اس ڈرامے کو اپنے نصاب میں شامل کیا۔
             محمد حسن کے ضحاک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں شروع سے آختر تک دل چسپی موجود ہے
             پلاٹ:-
                            ضحاک‘ کا پلاٹ بالکل گٹھا ہوا ہے۔ چوں کہ یہ تمثیلی نوعیت کا ڈراما ہے اس لیے اس میں معنی کی کئی سطحیں نظر آتی ہیں جس کی بنا پر اس کے پلاٹ میں تہہ داری آ گئی ہے۔ خود محمد حسن نے بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسے تین سطحوں کا ڈراما قرار دیا ہے۔ ایک سطح ایمرجنسی سے منسلک ہے۔ دوسری سطح سیاسی ناخدائوں کے گھنائونے مقاصد کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح وہ غیر جانب دار اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور تیسری سطح کا موضوع بقول محمد حسن:
’’وہ صنعتی ترقی اور وہ مشین ہے جو انسان کی دریافت ہے مگر خود انسان کی آقا بن گئی ہے اور منافع کے لیے استعمال ہونے والی یہ مشین انسان کو ایسے تشنج میں مبتلا کر چکی ہے کہ جس کی قیمت انسان اپنی روح کو گروی رکھ کر ادا کرتا ہے۔‘‘۷؎
اور سچ تو یہ ہے کہ معنی کی ان تینوں سطحوں کو نہایت سلیقے اور اعتدال و توازن کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ جہاں ضحاک کے ظلم و ستم کی عکاسی کی گئی ہے وہاں اس ظلم و ستم کے خلاف فریدوں کا پرزور اور موثر احتجاج بھی نمایاں ہے۔ ساتھ ہی صنعتی نظام کی کھوکھلی ترقیوں کو بھی تختۂ مشق بنایا گیا ہے جس نے انسانی قدروں کو درہم برہم کر کے ان پر اپنا ناجائز تسلط قائم کر رکھا ہے۔ ڈرامے میں پیش آنے والے تمام واقعات ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط ہیں اور کسی بھی واقعہ کو خواہ مخواہ ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ پورے پلاٹ میں کہیں بھی جھول نہیں اور نہ عمل کی رفتار سست یا مدھم پڑتی معلوم ہوتی ہے۔ خیالات کو کم سے کم الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے کسی طرح کا ابہام نہیں پیدا ہوتا بلکہ اثر آفرینی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پورے قصے میں عصری زندگی کروٹیں لیتی نظر آتی ہے۔
              جہاں تک ڈرامے کے مرکزی خیال کا تعلق ہے، ڈراما نگار نے خود ہی اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
           ’’ڈرامے کا تصور بہت سیدھا سادا ہے اور یہ ہے کہ انسانیت اور اس کے بہترین اداروں کا نجات دہندہ محنت کش طبقہ ہے اور فریدوں اس کا نمائندہ ہے اور یہ خیال رومانویت کے بجائے نئی حقیقت پسندی کے ذریعہ ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘۸؎
        ڈراما نگار کا یہ قول بالکل بجا ہے کیوں کہ ضحاک اور اس کے درباریوں کی شکل میں شرکی جن قوتوں نے سر ابھارنے کی کوشش کی ہے، فریدوں کے احتجاج کے بعد وہ اسے زیر کرنے کے لیے اپنے نرغے میں لے لیتی ہیں اور ڈرامے میں پیش آنے والے واقعات ڈرامے کے تیسرے سین سے ہی فریدوں کے گرد رقص کرنے لگتے ہیں۔ آخر کار فریدوں ہی معصوم عوام کا نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے جس نے اپنی حکمت عملی، شجاعت اور زورِ بازو سے کام لے کر ظلم کی قوتوں کو اپنے پیروں سے کچل ڈالا۔
            اس ڈرامے میں کل چھ سین اور دس اہم کردار ضحاک،نوشابہ فریدوں بوڑھا،وزیر اعظم،فوجی افسر،رقاصہ ،شاعر،جج اور راہب ہیں۔ ضحاک اپنے شانوں پر اُگ آئے دو سانپوں کی خوراک نہ ملنے سے پریشان ہے۔جب سانپوں کو ان کی خوراک نہیں ملتی تب دونوں سانپ ضحاک کے شانوں کو زور سے ڈستے ہیں۔وزیر اور درباری ضحاک کی اس کیفیت اور مصیبت کا کوئی حل یا علاج تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔دربار میں ایک پاگل بوڑھا نمودار ہوتا ہے اور وہ ضحاک سے اس کی روح کا سودا کرتا ہے اور وہ علاج کے طور پر بتاتا ہے کہ اگر ضحاک کو زندہ رہناہے تو سانپوں کو روزانہ انسانی کھوپڑی کے تازہ بھیجے کھلانے ہوں گے۔ضحاک جب یہ باتیں اپنے وزیروں اور درباریوں کو بتاتا ہے تو سب ڈرکی وجہ سے سہم جاتے ہیں۔درباریوں کے سامنے ضحاک اپنی تلوار سے دو نوکروں کو قتل کر ان کے بھیجوں کو سانپوں کو کھلا دیتا ہے۔ ضحاک کو زندہ رکھنے کے لیے راہب، شاعر ،استاد ،رقاصہ ،جج وغیرہ سب اس کی مرضی سے کام کرتے ہیں تاکہ ان کی جان محفوظ رہے۔یہ تمام لوگ عوام کو اس بات کے لیے تیار کرتے ہیں کہ تمہاری جان اور مال سب حکومت کا ہے۔طلبہ اورعوام کی اسی نہج پر تربیت ہوتی ہے حکم کی خلاف ورزی کرنا یا اس کے بارے میں سوچنا حکومت سے غداری ہے اوروقت آنے پر تمہیں اپنے شہنشاہ کے ایک حکم پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا۔لوگوں کے دماغوں میں شہنشاہ کی عظمت کا رعب بٹھا کر روزانہ بے قصور لوگوں کے بھیجے ضحاک کے شانو پر بیٹھے سانپوں کو کھلائے جاتے ہیں۔لیکن فریدوں( جو ایک کسان ہے)کو جب شہنشاہ کے سامنے دس قیدیوں کے ہمراہ قتل کے واسطے لایا جاتا ہے تو وہ اس نام نہاد عظیم شہنشاہ کے حکم کی نافرمانی کر کے بغاوت کا اعلان کر تاہے ۔جس کی پاداش میں اسے زندان میں ڈال دیا جاتا ہے۔زندان میں فریدوں کی تربیت کا ذمہ ضحاک کی بیوی نوشابہ اپنے اوپر لیتی ہے۔در اصل نوشابہ بھی کسان کی بیٹی فاطمہ تھی جسے ضحاک نے زبردستی اپنی بیوی نوشابہ بنالیایا تھا۔نوشابہ فریدوں کے لبوں سے ٹپکتے ہوئے خون سے اپنی جنسی آسودگی حاصل کرنا چاہتی ہے۔وہ فریدوں کو زندان میں سمجھاتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات بنائے نہیں تو انجام برا ہوگا۔فریدوں کسی طرح نوشابہ سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اور سوچنے کے لیے ایک رات کی مہلت مانگ لیتا ہے۔نوشابہ کے حکم پر زندان اور محل تک کے راستوں سے پہرے دار ہٹا لیے جاتے ہیں۔فریدوں موقع پاکر زندان سے فرار ہو جاتا ہے۔جب یہ بات ضحاک کو معلوم ہوتی ہے تو محل میں کہرام مچ جاتا ہے۔شاعر،جج،رقاصہ،راہب اور استاد، فریدوں کے اس عمل پر خوش ہوتے ہیں۔لیکن فوجی افسر نوشابہ کے ساتھ ان تمام لوگوں کو گرفتار کر ضحاک کے سامنے پیش کرتا ہے۔ضحاک ان کے لبوں پر لگے ہوئے ٹانکوں کو ہٹانے کا اشارہ کرتا ہے تبھی فریدوں محل میں داخل ہوکر گرفتار شدہ لوگوں کی جان کی بخشش مانگتا ہے۔لیکن اسی دوران عوام کی بھیڑ محل کے صدر دروازے کو توڑ کر اندر داخل ہو جاتی ہے۔فریدوں عوام سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اپنے شہنشاہ کو دیکھ لو جس کے شانوں پر دو سانپ ہیں اور جن کی خوراک انسانی بھیجے ہیں۔ضحاک کی حالت کو دیکھ کر عوام مشتعل ہو جاتی ہے اور محل میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔فریدوں، نوشابہ ،استاد،رقاصہ،جج،راہب اور شاعر کوآزاد کر دیتا ہے۔ فریدوں جیسے ہی ضحاک کو ختم کرنے کے ارادے سے آگے بڑھتا ہے بوڑھا شیطان حاضر ہوکر اس سے کہتا ہے کہ ضحاک کی روح میری ہے اور اس کا جسم سانپوں کی ملکیت ہے ۔بوڑھا شیطان آخر میں فریدوں سے کہتا ہے کہ’’ بھولتے ہو نادانو!صدیوں کی لڑائی کو لمحوں میں ختم کرنا چاہتے ہو؟ اس کے جواب میں فریدوں کہتا ہے’’یاد رکھ بوڑھے جب بھی جہاں بھی ضحاک سر اُٹھائے گا فریدوں کا یا اس کے کسی مظلوم بھائی یا بہن کا ہاتھ بھی ضرور اُٹھے گا۔‘‘اور فریدوں قیدیوں کے ٹانکے کاٹنے کا حکم دینے کے ساتھ نئے ضحاک کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔اس طرح ڈرامہ ’’ضحاک‘‘اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔
         کردار   :-
 ضحاک : فوجی افسر 
 نوشابه : رقاص اور ایک کسان کی بیٹی جسے اغوا کر لیا جاتا ہے 
 فریدون : ایک شاعر اور محنت کش
 بوڑھا : حج ہے اور صنعتی نظام کا نمائندہ ہے 
 وزیر اعظم : راہب ہے
               
                              ہر کر دار اپنے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے شاعراد یہوں ، ر قاصہ فنون لطیفہ ، وزیراعظم ، انتظامیہ ، فوجی افسر افواج قاہر ہ استاد نظام تعلیم ، نج عدلیہ اور فریدوں محنت کش طبقے کی نمائندگی کرتا ہے اس کے علاوہ ان سبھی کرداروں کو دو گروہوں میں تقسیم کر کے طاقتور اور کمزور طبقوں کی آپی کشمکش کو ابھارا گیا ۔
                        ڈرامہ نگار نے ہر کردار سے اس کی زبان کہلوائی ہے درباریوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے لب و لہجے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں آپسی رشتوں کی بنیاد انسانی و قار پر مبنی نہیں بلکہ آقا اور غلام ، طاقتور اور کمزور کے درمیان پائے جانے والے رشتوں کی طرح ہے چنانچہ اس فضا کو قائم رکھنے کے لیے مصنف انہیں کی زبان اور اصطلاح کو استعمال کرتا ہے ۔                                  پروفیسر محمد حسن نے اس ڈرامے میں نثری نظموں کا بہ خوبی استعمال کیا ہے۔مکالموں سے انھو ں نے اپنے نظریات کی عکاسی سلیقگی کے ساتھ پیش کی ہے- 
             ایمر جنسی کے المیے کو ان مکالموں میں جس انداز سے پیش کیا گیا ان سے اُس وقت کی حالت کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔لوگوں کے سوالوں کے بجائے ضحاک کی حکومت کو نتیجوں سے دل چسپی ہے-
                       ڈرامے کے آغاز میں محمد حسن نے اختر الایمان کی نظم کا ایک بند بھی نقل کیا ہے جو موجودہ دور میں انسانوں کے دگرگوں صور تحال کی طرف اشارہ کرتا ہے 
       یہ لوگ جن کو خدا بننے کی نہیں خواہش

       یہ لوگ جن کی شب  ماہ ہے نہ صبح چمن

       یہ لوگ جن کی کوئی شکل ہے نہ تاریخیں

       ہنسی میں ڈھال کے جیتے ہیں یوں ہی رنج و محن

       خدائے حاضر و غائب کی ہیں یہ وہ بھیڑیں

       جنھیں چراتے ہیں صدیوں سے رہبرانِ وطن

         یہ لوگ جو ہیں ہر اک فن کا خام سرمایہ

         انھیں سے باندھا ہے میں نے حیات کا دامن

        تصادم:-
                      محمد حسن کے ڈرامے میں بوڑھا، فوجی افسر، رقاصہ، شاعر اور جج اہم کردار ہیں۔ انھیں کی وجہ سے تصادم میں شدّت اور کش مکش میں اضافہ ہوتا ہے

 ڈرامہ ضحاک کا خلاصہ:-
                        ضحاک ایران کا ایک ظالم بادشاہ تھا ۔ جو شہنشاہ    جمشید کے حکومت کا تختہ الٹ کر ایران پر قابض ہو جاتا ہے اور بادشاہ جمشید کو گرفتار کراکے اسے آرے سے چروادیتا ہے پھر اس کی جگہ بادشاہ بن جاتا ہے اس جنگ میں وہ شیطانوں سے بھی مد دلیتا ہے اور شیطان خوشی میں اسکے کندھوں کا بوسہ لیتا ہے بوسے کی جگہ دو سانپ نکل آتے ہیں جو اسے مسلسل ڈستے رہتے ہیں جس سے وہ عاجز ہو کر پورے علاقے میں اعلان کر واتا ہے کہ کوئی اس اذیت سے نکالنے کا علاج بتاۓ ور نہ سب مار میں جائیں گے تو ایک شیطان بوڑھے کی شکل میں دربار میں آکر اسے علاج تو نہیں بتاناالبتہ درد کم کرنے کا نسخہ بتانے پر راضی ہوتا ہے اور روح کے سودے کی شرط رکھتا ہے بادشاہ مجبور أنشر ط قبول کر لیتا ہے . نسخہ یہ ہوتا ہے کی روز 2 وقت 2 انسانی بھیجے ان سانپوں کو کھلایا جائے جس سے وہ سکون محسوس کرتا ہے البتہ اپنے سپاہیوں ججوں اور سارے سر کاری کارندوں کو اس کے اس فعل کو جائز ، حلال اور بالکل صحیح ثابت کرنے میں لگادیتا ہے ۔ضحاک کا خاتمہ فریدوں کے ہاتھوں ہوتا ہے اور وہی حکومت کی باگ ڈور سنبھالتا ہے
          محمد حسن کا ضحاک لوگوں کے سر قلم کراتا، مردوں کو آختہ کراتا اور قلم کاروں کے ہاتھ کٹواتا ہے۔ کافر اور ملحد قبیلوں کو فرقہ وارانہ فساد میں قتل کراتا ہے۔ زیادہ اجرت مانگنے والے مزدوروں اور کسانوں کو گورخرکی کھال میں زندہ سلوا دیتا ہے۔ عورتوں کے رحم نکلواکر پھینکوادیتا ہے۔ اس کے ظلم کا نشانہ کوئی مخصوص طبقہ نہیں بلکہ عام رعایا ہے 
          پروفیسر محمد حسن کایہ ڈرامہ صرف ایمر جنسی کی المیہ نہیں ہے بلکہ یہ جمہوری نظام اور قدروں کو اپنے پاؤں تلے روندنے والے ظالم حکمرانوں کی داستان ہے۔ یہ ڈرامہ ہر اُس دور کا المیہ ہے جہاں ضحاک جیسے مطلق النعان آمر دبے کچلے اور مفلوک الحال لوگوں کے حقوق سلب کرتے ہیں۔جہاں سچ بولنے ،سوچنے ،لکھنے اور کہنے پر پابندی عائد کی جاتی ہو۔ ایسے پراگندہ ماحول میں عوام کا مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانا جرأت مندانہ قدم تسلیم کیا جاتا ہے ۔یہ ڈرامہ اس دورکی ترجمانی کرتا ہے جہاں طلبہ ،کسانوں اور مزدوروں کے رگ و پے میں ایسی باتیں سرایت کی جاتی ہوں کہ ہمارا پالنہار صرف اور صرف ضحاک جیسا آمر ہے۔جب کہ حقیقت اس کے اُلٹ ہوتی ہے۔ضحاک جیسا حکمراں کبھی بھی عوام الناس کی فلاح و بہبودی کی باتیں نہیں سوچ سکتا وہ تو اپنی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے انسانوں کے دماغوں کو منجمد کرتا ہے۔ضحاک ہر ملک میں دیکھنے کو مل جاتے ہیںجو عوام کا خون چوسنے کے بعد ان کے جسموں سے کھیلتے ہیں۔ ضحاک جیسے حکمراں عورتوں اور بچوں کو ذہنی قیدی بنا کر انھیں غلامی کے مجسمے میں ڈھلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ضحاک جیسے جابر و ظالم حکمراں معاشرے کے با اثر لوگوں کے اذہان کو اپنی مٹھی میں بند اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر سکیں۔پروفیسر محمد حسن نے اس ڈرامے کے ذریعے جو پیغام دیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم کے سامنے سینہ سپر کرنا ہر دور میں نئے فریدوں تیار کرنے کے مترادف ہے۔فریدوں جیسے نڈر اور بہادر لوگ ظالم حکمرانوں کے اعمال ناموں کو عوام کے سامنے پیش کر ان کی سلطنتوں کو زمین دوز کرتے ہیں۔بہر حال ڈرامہ’’ضحاک‘‘کو لکھے ہوئے 44برس گزر چکے ہیں لیکن اس کی عصری معنویت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی ہے۔اگر اسے ڈرامے کو اکیسویں صدی کے ابتدائی بیس سالوں کے پس منظر میں دیکھیں تو اس کیافادیت اور بڑھ جائے گی-
یہ  نیلا  رنگ لنک  کلک کر ڈرامہ پڑھیے 



       

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

محمد حسن

             پروفیسر محمد حسن:-      پروفیسر محمد حسن کا شمار ہندوستان کے مشہور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ محمد حسن مراد آباد ( ...