بدھ، 4 مئی، 2022

محمد حسن

             پروفیسر محمد حسن:-


     پروفیسر محمد حسن کا شمار ہندوستان کے مشہور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ محمد حسن مراد آباد ( نواب پورہ ) میں کیم جولائی 1926 کو پیدا ہوۓ ۔ والد کا نام محمد الطاف ، والدہ کا نام رضوان فاطمہ تھا ۔ ابتدائی تعلیم مرادآ باد کے ایک ہائی سکول سے حاصل کی ۔ 1934 میں میٹرک پاس کیا اور 1939 میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا ۔ 1941 میں تعلیم کی غرض سے لکھنو چلے گئے ۔ 
                    لکھنو یو نیورسٹی سے ایم۔اے کرنے کے بعد وہیں سے ایل۔ایل۔بی اور پی۔ایچ ۔ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ لکھنو یو نیورسٹی میں عارضی طور پر درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دس سال تک لکچر ر رہے ۔ اس کے علاوہ کئی یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر کام کیا ۔
                 محمد حسن ایک اچھے شاعر ، افسانہ نگار ، تخلق کار ، نقاد اور صحافی بھی تھے ۔ انہوں نے 75 کتابوں کی تصنیف ( اور ادارت ) کی ہے ۔ کئی ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ شعری مجموعہ " زنجیر نغمہ " کے نام سے شائع ہوا ۔ آل انڈیا ریڈیو سمیت دوسرے ریڈیو سٹیشنوں کے لئے ڈرامے اور فیچر ز لکھتے رہے ۔ ان کا پہلا فیچر “ یہ لکھنو ہے “ کے نام سے نشر ہوا تو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔ یہاں سے حسن کو ڈرامے لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔اور وہ با قاعدہ طور پر ڈرامے لکھنے لگے ۔
                      محمد حسن 24 اپریل 2010 ء میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ لیکن اردوادب کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
                       محمد حسن کا ایک ڈرامہ " کہرے کا چاند " 1968 میں شائع ہوا ، جس میں انہوں نے مرزا غالب کی حیات کو موضوع بنایا ہے۔اس کے علاوہ " نقش فریادی " اور " تماشہ اور تماشائی میں بھی غالب کو موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔ 1980 میں آپ کا ایک مشہور ڈرامہ " ضحاک " شائع ہوا ۔ یہ ہندوستان میں ایمر جنسی کا دور تھا ، لوگوں پر ظلم ہورہے تھے محمد حسن نے یہ ڈرامہ بطور احتجاج لکھا جس میں ظالم حکومت کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا ۔
         انعام :-  
                         محمد حسن کو مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا جس میں ہم سب غالب ڈراما ایوارڈ ، پریشد ایوارڈ ، بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ، یوپی اردو اکادمی ایوارڈ ، حیدر آباد ساہتیہ پریشد ایوارڈ ، دلی اردو اکادمی ایوارڈ ، مہاراشٹر اردو اکادمی ایوارڈ ، جواہر لال نہرو فیلو ایوارڈ شامل ہیں ۔
        تصانیف:-
                          ان کے منتخب ڈراموں کا پہلا مجموعہ " پیسہ اور پر چھائیں ادارہ " فروغ اردو لکھنوء " نے 1955 ء میں شائع کیا جس میں نو ڈرامے شامل تھے ۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے : ہے پیسہ اور پر چھائیں ، سرخ پر دے ، سونے کی زنجیریں ، نظیر اکبر آبادی ، نقش فریادی ، اکبر اعظم ، انسپکٹر جنرل ، حکم کی بیگم اور معمار اعظم۔پروفیسر محمد حسن کے ڈراموں کا دوسرا مجموعہ " میرے اسٹیج ڈرامے " 1969 ء میں شائع ہوا ۔ جس میں ریہرسل ، محل سرا ، میر تقی میر ، موم کے بت ، فٹ پاتھ کے شہزادے شامل ہیں ۔ آپ کے ڈراموں کا تیسرا مجموعہ 1994 میں " مور اور پنکھی “ کے نام سے منظر عام پر آیا ۔ جس میں شکست ، مور پکھی ، مولسری کے پھول ، پچ کازہر ، دارا شکوہ ، کچلا ہوا پھول ، اور خوابوں کا سودا گر و غیر شامل ہیں ۔
                   ڈرامہ ضحاک
                           ڈرامہ ضحاک یہ ڈرامہ ابتدائی چند صفحات ات کے علاوہ ایمر جنسی یعنی 1976 ء کے زمانے میں ہی لکھا گیا لیکن ایمر جنسی میں زبان بندی کی وجہ سے چپ نہ سکا ۔ ڈرامہ ضحاک پہلی بار عصری ادب شمارہ 47 48 میں 1977 کو چھپااور 1980 میں کتابی شکل میں شائع ہوا ۔ پروفیسر محمد حسن کہتے ہیں " ضحاک کی کہانی نئی نہیں ہے ضحاک کا پوراقصہ فردوسی کے شاہنامہ میں موجود ہے اور نثر و نظم میں بار بار بیان ہوا ہے اس میں نیا پن ہے تو اس سیاسی رمز بیت میں ہے جو ضحاک کے کردار کو میرے ڈرامے سے حاصل ہو گئی ۔ آپ کی معلومات کے لئے ایک بات بتاتا چلوں کہ شاہنامہ کا فارسی نثری خلاصہ " شمشیر خوانی " ہے رجب علی بیگ سرور نے اس کا ترجمہ " سرور سلطانی " کے عنوان سے اردو میں کیا اور یہی " سرور سلطانی " محمد حسن کاماخذ بنا ۔ چھ مناظر پر مشتمل یہ ڈرامہ ایک ڈرامہ کی روایت کی پیروی میں لکھا گیا ایک اہم اردو ڈراما ہے اس کا پلاٹ فردوسی کے شاہنامے سے چلی روایت کے ترجمے " سر ور سلطانی " سے ماخوذ ہے ڈاکٹر محمد حسن نے اس روایت کو ایمر جنسی کے دوران ملک میں جو مظالم ڈھائے گئے انہیں پیش کرنے کے لئے بڑی ہنر مندی سے ایپک ڈرامے کی صورت میں برتا ہے اس روایت کے ذریعے انہوں نے دو مقاصد حاصل کرنے کی کو شش کی ہے ایک یہ کہ ایمر جنسی کے دوران جو کچھ ہوا اسے علامتی انداز میں من و عن محفوظ کر لیا جاۓ اور دوسرے یہ کہ عوام کے دلوں میں یہ بات بٹھادی جاۓ کہ ہمارے سماجی مسائل کا حل صرف اور  صرف اشتراکیت میں ہے ۔
                 محمد حسن کا ڈراما انسانی بھیجوں پر زندہ رہنے والے شہنشاہ کی کہانی ہے اور یہاں انسانی ضمیروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے
                          ناقدین نے پروفیسر محمد حسن کے ڈرامے پر کئی طرح کے الزامات لگائے ہیں ۔اول یہ کہ ڈرامہ’’ ضحاک‘‘ اختر شیرانی کے ڈرامے’’ضحاک‘‘کا سرقہ ہے جس کا موصوف نے کہیں ذکر نہیں کیا ہے۔دوم یہ کہ اس ڈرامے میں پروفیسر محمد حسن نے احتجاج کے ساتھ اشتراکی نظریات کاپرچار کیا۔ان تمام تر الزامات کے باوجود اس ڈرامے کی عصری معنویت اور افادیت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔پروفیسر محمد حسن کے مطابق’’ضحاک محض ایک دور کا کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ زمان و مکان کے قیود توڑ تا ہوا آگے بڑھتا ہے۔‘‘ اوربقول گیان چند جین’’میں کہہ سکتا ہوں کہ اُردو کے تخلیقی ادب میں ایمر جنسی کے خلاف اتنا پر زور ،اتنا رچا ہوا اور ساری فضا پر چھایا ہوا احتجاج اور کہیں نہیں ملتا۔‘‘ ڈرامہ ’’ضحاک‘‘کے متن کی کساوٹ ،مکالمے اور سادہ اسلوب کی وجہ سے ہندوستان کی مختلف دانش گاہوں میں اس ڈرامے کو اپنے نصاب میں شامل کیا گیا۔نصابی ضرورت کے تحت ہی اس ڈرامے کو کتابی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی۔سب سے پہلے حیدرآباد سینٹرل یونی ورسٹی نے پروفیسر گیان چند جین کے مشورے پر اس ڈرامے کو اپنے نصاب میں شامل کیا۔
             محمد حسن کے ضحاک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں شروع سے آختر تک دل چسپی موجود ہے
             پلاٹ:-
                            ضحاک‘ کا پلاٹ بالکل گٹھا ہوا ہے۔ چوں کہ یہ تمثیلی نوعیت کا ڈراما ہے اس لیے اس میں معنی کی کئی سطحیں نظر آتی ہیں جس کی بنا پر اس کے پلاٹ میں تہہ داری آ گئی ہے۔ خود محمد حسن نے بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسے تین سطحوں کا ڈراما قرار دیا ہے۔ ایک سطح ایمرجنسی سے منسلک ہے۔ دوسری سطح سیاسی ناخدائوں کے گھنائونے مقاصد کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح وہ غیر جانب دار اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور تیسری سطح کا موضوع بقول محمد حسن:
’’وہ صنعتی ترقی اور وہ مشین ہے جو انسان کی دریافت ہے مگر خود انسان کی آقا بن گئی ہے اور منافع کے لیے استعمال ہونے والی یہ مشین انسان کو ایسے تشنج میں مبتلا کر چکی ہے کہ جس کی قیمت انسان اپنی روح کو گروی رکھ کر ادا کرتا ہے۔‘‘۷؎
اور سچ تو یہ ہے کہ معنی کی ان تینوں سطحوں کو نہایت سلیقے اور اعتدال و توازن کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ جہاں ضحاک کے ظلم و ستم کی عکاسی کی گئی ہے وہاں اس ظلم و ستم کے خلاف فریدوں کا پرزور اور موثر احتجاج بھی نمایاں ہے۔ ساتھ ہی صنعتی نظام کی کھوکھلی ترقیوں کو بھی تختۂ مشق بنایا گیا ہے جس نے انسانی قدروں کو درہم برہم کر کے ان پر اپنا ناجائز تسلط قائم کر رکھا ہے۔ ڈرامے میں پیش آنے والے تمام واقعات ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط ہیں اور کسی بھی واقعہ کو خواہ مخواہ ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ پورے پلاٹ میں کہیں بھی جھول نہیں اور نہ عمل کی رفتار سست یا مدھم پڑتی معلوم ہوتی ہے۔ خیالات کو کم سے کم الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے کسی طرح کا ابہام نہیں پیدا ہوتا بلکہ اثر آفرینی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پورے قصے میں عصری زندگی کروٹیں لیتی نظر آتی ہے۔
              جہاں تک ڈرامے کے مرکزی خیال کا تعلق ہے، ڈراما نگار نے خود ہی اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
           ’’ڈرامے کا تصور بہت سیدھا سادا ہے اور یہ ہے کہ انسانیت اور اس کے بہترین اداروں کا نجات دہندہ محنت کش طبقہ ہے اور فریدوں اس کا نمائندہ ہے اور یہ خیال رومانویت کے بجائے نئی حقیقت پسندی کے ذریعہ ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘۸؎
        ڈراما نگار کا یہ قول بالکل بجا ہے کیوں کہ ضحاک اور اس کے درباریوں کی شکل میں شرکی جن قوتوں نے سر ابھارنے کی کوشش کی ہے، فریدوں کے احتجاج کے بعد وہ اسے زیر کرنے کے لیے اپنے نرغے میں لے لیتی ہیں اور ڈرامے میں پیش آنے والے واقعات ڈرامے کے تیسرے سین سے ہی فریدوں کے گرد رقص کرنے لگتے ہیں۔ آخر کار فریدوں ہی معصوم عوام کا نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے جس نے اپنی حکمت عملی، شجاعت اور زورِ بازو سے کام لے کر ظلم کی قوتوں کو اپنے پیروں سے کچل ڈالا۔
            اس ڈرامے میں کل چھ سین اور دس اہم کردار ضحاک،نوشابہ فریدوں بوڑھا،وزیر اعظم،فوجی افسر،رقاصہ ،شاعر،جج اور راہب ہیں۔ ضحاک اپنے شانوں پر اُگ آئے دو سانپوں کی خوراک نہ ملنے سے پریشان ہے۔جب سانپوں کو ان کی خوراک نہیں ملتی تب دونوں سانپ ضحاک کے شانوں کو زور سے ڈستے ہیں۔وزیر اور درباری ضحاک کی اس کیفیت اور مصیبت کا کوئی حل یا علاج تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔دربار میں ایک پاگل بوڑھا نمودار ہوتا ہے اور وہ ضحاک سے اس کی روح کا سودا کرتا ہے اور وہ علاج کے طور پر بتاتا ہے کہ اگر ضحاک کو زندہ رہناہے تو سانپوں کو روزانہ انسانی کھوپڑی کے تازہ بھیجے کھلانے ہوں گے۔ضحاک جب یہ باتیں اپنے وزیروں اور درباریوں کو بتاتا ہے تو سب ڈرکی وجہ سے سہم جاتے ہیں۔درباریوں کے سامنے ضحاک اپنی تلوار سے دو نوکروں کو قتل کر ان کے بھیجوں کو سانپوں کو کھلا دیتا ہے۔ ضحاک کو زندہ رکھنے کے لیے راہب، شاعر ،استاد ،رقاصہ ،جج وغیرہ سب اس کی مرضی سے کام کرتے ہیں تاکہ ان کی جان محفوظ رہے۔یہ تمام لوگ عوام کو اس بات کے لیے تیار کرتے ہیں کہ تمہاری جان اور مال سب حکومت کا ہے۔طلبہ اورعوام کی اسی نہج پر تربیت ہوتی ہے حکم کی خلاف ورزی کرنا یا اس کے بارے میں سوچنا حکومت سے غداری ہے اوروقت آنے پر تمہیں اپنے شہنشاہ کے ایک حکم پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا۔لوگوں کے دماغوں میں شہنشاہ کی عظمت کا رعب بٹھا کر روزانہ بے قصور لوگوں کے بھیجے ضحاک کے شانو پر بیٹھے سانپوں کو کھلائے جاتے ہیں۔لیکن فریدوں( جو ایک کسان ہے)کو جب شہنشاہ کے سامنے دس قیدیوں کے ہمراہ قتل کے واسطے لایا جاتا ہے تو وہ اس نام نہاد عظیم شہنشاہ کے حکم کی نافرمانی کر کے بغاوت کا اعلان کر تاہے ۔جس کی پاداش میں اسے زندان میں ڈال دیا جاتا ہے۔زندان میں فریدوں کی تربیت کا ذمہ ضحاک کی بیوی نوشابہ اپنے اوپر لیتی ہے۔در اصل نوشابہ بھی کسان کی بیٹی فاطمہ تھی جسے ضحاک نے زبردستی اپنی بیوی نوشابہ بنالیایا تھا۔نوشابہ فریدوں کے لبوں سے ٹپکتے ہوئے خون سے اپنی جنسی آسودگی حاصل کرنا چاہتی ہے۔وہ فریدوں کو زندان میں سمجھاتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات بنائے نہیں تو انجام برا ہوگا۔فریدوں کسی طرح نوشابہ سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اور سوچنے کے لیے ایک رات کی مہلت مانگ لیتا ہے۔نوشابہ کے حکم پر زندان اور محل تک کے راستوں سے پہرے دار ہٹا لیے جاتے ہیں۔فریدوں موقع پاکر زندان سے فرار ہو جاتا ہے۔جب یہ بات ضحاک کو معلوم ہوتی ہے تو محل میں کہرام مچ جاتا ہے۔شاعر،جج،رقاصہ،راہب اور استاد، فریدوں کے اس عمل پر خوش ہوتے ہیں۔لیکن فوجی افسر نوشابہ کے ساتھ ان تمام لوگوں کو گرفتار کر ضحاک کے سامنے پیش کرتا ہے۔ضحاک ان کے لبوں پر لگے ہوئے ٹانکوں کو ہٹانے کا اشارہ کرتا ہے تبھی فریدوں محل میں داخل ہوکر گرفتار شدہ لوگوں کی جان کی بخشش مانگتا ہے۔لیکن اسی دوران عوام کی بھیڑ محل کے صدر دروازے کو توڑ کر اندر داخل ہو جاتی ہے۔فریدوں عوام سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اپنے شہنشاہ کو دیکھ لو جس کے شانوں پر دو سانپ ہیں اور جن کی خوراک انسانی بھیجے ہیں۔ضحاک کی حالت کو دیکھ کر عوام مشتعل ہو جاتی ہے اور محل میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔فریدوں، نوشابہ ،استاد،رقاصہ،جج،راہب اور شاعر کوآزاد کر دیتا ہے۔ فریدوں جیسے ہی ضحاک کو ختم کرنے کے ارادے سے آگے بڑھتا ہے بوڑھا شیطان حاضر ہوکر اس سے کہتا ہے کہ ضحاک کی روح میری ہے اور اس کا جسم سانپوں کی ملکیت ہے ۔بوڑھا شیطان آخر میں فریدوں سے کہتا ہے کہ’’ بھولتے ہو نادانو!صدیوں کی لڑائی کو لمحوں میں ختم کرنا چاہتے ہو؟ اس کے جواب میں فریدوں کہتا ہے’’یاد رکھ بوڑھے جب بھی جہاں بھی ضحاک سر اُٹھائے گا فریدوں کا یا اس کے کسی مظلوم بھائی یا بہن کا ہاتھ بھی ضرور اُٹھے گا۔‘‘اور فریدوں قیدیوں کے ٹانکے کاٹنے کا حکم دینے کے ساتھ نئے ضحاک کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔اس طرح ڈرامہ ’’ضحاک‘‘اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔
         کردار   :-
 ضحاک : فوجی افسر 
 نوشابه : رقاص اور ایک کسان کی بیٹی جسے اغوا کر لیا جاتا ہے 
 فریدون : ایک شاعر اور محنت کش
 بوڑھا : حج ہے اور صنعتی نظام کا نمائندہ ہے 
 وزیر اعظم : راہب ہے
               
                              ہر کر دار اپنے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے شاعراد یہوں ، ر قاصہ فنون لطیفہ ، وزیراعظم ، انتظامیہ ، فوجی افسر افواج قاہر ہ استاد نظام تعلیم ، نج عدلیہ اور فریدوں محنت کش طبقے کی نمائندگی کرتا ہے اس کے علاوہ ان سبھی کرداروں کو دو گروہوں میں تقسیم کر کے طاقتور اور کمزور طبقوں کی آپی کشمکش کو ابھارا گیا ۔
                        ڈرامہ نگار نے ہر کردار سے اس کی زبان کہلوائی ہے درباریوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے لب و لہجے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں آپسی رشتوں کی بنیاد انسانی و قار پر مبنی نہیں بلکہ آقا اور غلام ، طاقتور اور کمزور کے درمیان پائے جانے والے رشتوں کی طرح ہے چنانچہ اس فضا کو قائم رکھنے کے لیے مصنف انہیں کی زبان اور اصطلاح کو استعمال کرتا ہے ۔                                  پروفیسر محمد حسن نے اس ڈرامے میں نثری نظموں کا بہ خوبی استعمال کیا ہے۔مکالموں سے انھو ں نے اپنے نظریات کی عکاسی سلیقگی کے ساتھ پیش کی ہے- 
             ایمر جنسی کے المیے کو ان مکالموں میں جس انداز سے پیش کیا گیا ان سے اُس وقت کی حالت کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔لوگوں کے سوالوں کے بجائے ضحاک کی حکومت کو نتیجوں سے دل چسپی ہے-
                       ڈرامے کے آغاز میں محمد حسن نے اختر الایمان کی نظم کا ایک بند بھی نقل کیا ہے جو موجودہ دور میں انسانوں کے دگرگوں صور تحال کی طرف اشارہ کرتا ہے 
       یہ لوگ جن کو خدا بننے کی نہیں خواہش

       یہ لوگ جن کی شب  ماہ ہے نہ صبح چمن

       یہ لوگ جن کی کوئی شکل ہے نہ تاریخیں

       ہنسی میں ڈھال کے جیتے ہیں یوں ہی رنج و محن

       خدائے حاضر و غائب کی ہیں یہ وہ بھیڑیں

       جنھیں چراتے ہیں صدیوں سے رہبرانِ وطن

         یہ لوگ جو ہیں ہر اک فن کا خام سرمایہ

         انھیں سے باندھا ہے میں نے حیات کا دامن

        تصادم:-
                      محمد حسن کے ڈرامے میں بوڑھا، فوجی افسر، رقاصہ، شاعر اور جج اہم کردار ہیں۔ انھیں کی وجہ سے تصادم میں شدّت اور کش مکش میں اضافہ ہوتا ہے

 ڈرامہ ضحاک کا خلاصہ:-
                        ضحاک ایران کا ایک ظالم بادشاہ تھا ۔ جو شہنشاہ    جمشید کے حکومت کا تختہ الٹ کر ایران پر قابض ہو جاتا ہے اور بادشاہ جمشید کو گرفتار کراکے اسے آرے سے چروادیتا ہے پھر اس کی جگہ بادشاہ بن جاتا ہے اس جنگ میں وہ شیطانوں سے بھی مد دلیتا ہے اور شیطان خوشی میں اسکے کندھوں کا بوسہ لیتا ہے بوسے کی جگہ دو سانپ نکل آتے ہیں جو اسے مسلسل ڈستے رہتے ہیں جس سے وہ عاجز ہو کر پورے علاقے میں اعلان کر واتا ہے کہ کوئی اس اذیت سے نکالنے کا علاج بتاۓ ور نہ سب مار میں جائیں گے تو ایک شیطان بوڑھے کی شکل میں دربار میں آکر اسے علاج تو نہیں بتاناالبتہ درد کم کرنے کا نسخہ بتانے پر راضی ہوتا ہے اور روح کے سودے کی شرط رکھتا ہے بادشاہ مجبور أنشر ط قبول کر لیتا ہے . نسخہ یہ ہوتا ہے کی روز 2 وقت 2 انسانی بھیجے ان سانپوں کو کھلایا جائے جس سے وہ سکون محسوس کرتا ہے البتہ اپنے سپاہیوں ججوں اور سارے سر کاری کارندوں کو اس کے اس فعل کو جائز ، حلال اور بالکل صحیح ثابت کرنے میں لگادیتا ہے ۔ضحاک کا خاتمہ فریدوں کے ہاتھوں ہوتا ہے اور وہی حکومت کی باگ ڈور سنبھالتا ہے
          محمد حسن کا ضحاک لوگوں کے سر قلم کراتا، مردوں کو آختہ کراتا اور قلم کاروں کے ہاتھ کٹواتا ہے۔ کافر اور ملحد قبیلوں کو فرقہ وارانہ فساد میں قتل کراتا ہے۔ زیادہ اجرت مانگنے والے مزدوروں اور کسانوں کو گورخرکی کھال میں زندہ سلوا دیتا ہے۔ عورتوں کے رحم نکلواکر پھینکوادیتا ہے۔ اس کے ظلم کا نشانہ کوئی مخصوص طبقہ نہیں بلکہ عام رعایا ہے 
          پروفیسر محمد حسن کایہ ڈرامہ صرف ایمر جنسی کی المیہ نہیں ہے بلکہ یہ جمہوری نظام اور قدروں کو اپنے پاؤں تلے روندنے والے ظالم حکمرانوں کی داستان ہے۔ یہ ڈرامہ ہر اُس دور کا المیہ ہے جہاں ضحاک جیسے مطلق النعان آمر دبے کچلے اور مفلوک الحال لوگوں کے حقوق سلب کرتے ہیں۔جہاں سچ بولنے ،سوچنے ،لکھنے اور کہنے پر پابندی عائد کی جاتی ہو۔ ایسے پراگندہ ماحول میں عوام کا مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانا جرأت مندانہ قدم تسلیم کیا جاتا ہے ۔یہ ڈرامہ اس دورکی ترجمانی کرتا ہے جہاں طلبہ ،کسانوں اور مزدوروں کے رگ و پے میں ایسی باتیں سرایت کی جاتی ہوں کہ ہمارا پالنہار صرف اور صرف ضحاک جیسا آمر ہے۔جب کہ حقیقت اس کے اُلٹ ہوتی ہے۔ضحاک جیسا حکمراں کبھی بھی عوام الناس کی فلاح و بہبودی کی باتیں نہیں سوچ سکتا وہ تو اپنی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے انسانوں کے دماغوں کو منجمد کرتا ہے۔ضحاک ہر ملک میں دیکھنے کو مل جاتے ہیںجو عوام کا خون چوسنے کے بعد ان کے جسموں سے کھیلتے ہیں۔ ضحاک جیسے حکمراں عورتوں اور بچوں کو ذہنی قیدی بنا کر انھیں غلامی کے مجسمے میں ڈھلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ضحاک جیسے جابر و ظالم حکمراں معاشرے کے با اثر لوگوں کے اذہان کو اپنی مٹھی میں بند اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر سکیں۔پروفیسر محمد حسن نے اس ڈرامے کے ذریعے جو پیغام دیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم کے سامنے سینہ سپر کرنا ہر دور میں نئے فریدوں تیار کرنے کے مترادف ہے۔فریدوں جیسے نڈر اور بہادر لوگ ظالم حکمرانوں کے اعمال ناموں کو عوام کے سامنے پیش کر ان کی سلطنتوں کو زمین دوز کرتے ہیں۔بہر حال ڈرامہ’’ضحاک‘‘کو لکھے ہوئے 44برس گزر چکے ہیں لیکن اس کی عصری معنویت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی ہے۔اگر اسے ڈرامے کو اکیسویں صدی کے ابتدائی بیس سالوں کے پس منظر میں دیکھیں تو اس کیافادیت اور بڑھ جائے گی-
یہ  نیلا  رنگ لنک  کلک کر ڈرامہ پڑھیے 



       

اتوار، 6 فروری، 2022

محی الدین، کٹی صاحب

മൊയ്തീൻ കുട്ടി മാഷ്

 കേരളത്തിലെ പ്രശസ്തനായ ഉറുദു സാഹിത്യകാരണണ് ഇദ്ദേഹത്തിന് പദ്യത്തിലും ഗദ്യത്തിലും ഒരു പോലെ കഴിവുണ്ട്. ഇദ്ദേഹം കൂടുതലും പദ്യമാണ് എഴുതാറ് സാഹിബിൻ്റെ ഭാഷ സരളവും സരസവുമാണ് 'കാവ്യരചനയിൽ സർവറിന്റെ പിൻഗാമിയാണ് മെഹ്റും.

 NMK ക്ക് ഉർദുവിന്റെ ആദ്യാ അക്ഷരങ്ങൾ പകർന്ന് നൽകിയത് കേരളത്തിന്റെ ഉർദു കവി സയ്യിദ് മുഹമ്മദ്‌ സർവരാണ്.അത് കൊണ്ട് തന്നെ ആനുകാലിക വിഷയങ്ങളിൽ മുഷായിറകളിലും പ്രസിദ്ധീകരണങ്ങളിലും വരുന്ന NMK യുടെ കവിതകൾ ഉർദുവിലെ പ്രശസ്ത കവികളുടെ രചനയോട് കടപിടിക്കുന്നതാണ് .

കേരള സ്കൂൾ കലോത്സവത്തിലെ ഏറ്റവും ജനപ്രിയമായ ഇനമായ ഉർദു സംഘഗാന മത്സരത്തിൽ സ്കൂൾ തലം മുതൽ സംസ്ഥാന തലം വരെ ആലപിക്കുന്ന ഗാനങ്ങളിൽ അധികവും NMK യുടെ വരികളാണ്.

മൊയ്തീൻ കുട്ടി മാസ്റ്റർ മെഹറൂം 
 എന്ന തൂലികാ നാമത്തിലാണ് എഴുതുന്നത്. മാഷ് ഇപ്പോൾ തന്റെ കാവ്യ സമാഹാരത്തിന്റെ അവസാന മിനുക്ക് പണിയുടെ തിരക്കിലാണ്
ഉർദു സെമിനാരുകളിലെ കേരള ശബ്ദം.

കേന്ദ്ര സാഹിത്യ അക്കാദമി, കർണ്ണാടക ഉർദു അക്കാഡമി, NCPUL, UGC, തുടങ്ങിയവയുടെ നേതൃത്വത്തിൽ സംഘടിപ്പിച്ച പത്തോളം ദേശീയ സെമിനാറുകളിൽ NMK അവതരിപ്പിച്ച പ്രാബന്ധങ്ങൾ ശ്രദ്ധേയമാണ്.

കവിത നിർഗളിക്കുന്ന പ്രഭാഷണങ്ങൾ;-
ഉറുദുവിന്റെ മാധുര്യം ആസ്വദികണമെങ്കിൽ അക്കാദമിക് മീറ്റുകളിലും സമ്മേളനങ്ങളിലും മറ്റും NMK നടത്തുന്ന പ്രഭാഷണങ്ങൾ ശ്രവിച്ചാൽ മതിയാകും. വിഷയങ്ങളിലെ ആയത്തിലുള്ള അറിവും അവതരണത്തിലുള്ള ഒഴുക്കും കവിതകളുടെ അകംമ്പടിയുമാണ് NMK യുടെ പ്രഭാഷണത്തെ മറ്റുള്ളവരിൽ നിന്ന് വേറിട്ട്‌ നിർത്തുന്നത്
ഇദ്ദേഹത്തിൻ്റെ പ്രശസ്തമായ കവിതകളിലൂടെ;-
Open video press title

جمعرات، 3 ستمبر، 2020

ഉറുദുഭാഷയും സ്വതന്ത്ര സമരവും

ഉറുദുഭാഷയും സ്വതന്ത്ര സമരവും


ഡൽഹിയുടെ തെരുവുകളിൽ ജനിച്ച ഉർദു ഭാഷ 20,  21 നൂറ്റാണ്ടുകളിൽകലാപത്തിന്റെ  ഭാഷയായി മാറി.



ബ്രിട്ടീഷ് ഭരണത്തിൽ നിന്ന് സ്വാതന്ത്ര്യത്തിനായി ഉർദു കവികളും പത്രാധിപന്മാരും നിരന്തരം പ്രയത്നിച്ചു. 
സ്വാതന്ത്ര്യത്തിനായി ശബ്ദമുയർത്തിയ ഉർദു പത്രങ്ങളാണ് jame jahan numa, dahli urdu akhbar തുടങ്ങിയവ. ബ്രിട്ടീഷ് വിരുദ്ധ ആശയങ്ങൾ പ്രചരിപ്പിച്ചിരുന്ന ഇത്തരം പത്രങ്ങൾ ബ്രിട്ടീഷ് സർക്കാർ നിരോധിച്ചിരുന്നെങ്കിലും പോരാട്ടവീര്യം കെടുത്താനായില്ല. 


ബ്രിട്ടീഷ് ഭരണകൂടത്തിനെതിരെ ശബ്ദമുയർത്തിയ ആദ്യ കവികളിലൊരാളാണ് അൽതാഫ് ഹുസ്സയിൻ ഹാലി. 
ഹുബ്ബെ വതൻ  എന്ന പേരിൽ അദ്ദേഹം ഒരു മസ്നവി എഴുതി. ജോഷ്  മലീഹാബാദി എന്ന ഉറുദു കവി എന്നറിയപ്പെടുന്നത 'ഷായിറെ  ഇൻക്വിലാബ്' അതായത് 'വിപ്ലവകവി'എന്നാണ്.  വിപ്ലവമാണ് എന്റെ മുദ്രാവാക്യം എന്ന് അദ്ദേഹം പറയുന്നതിങ്ങനെയാണ്.

Kaam he mera thaghayyur naam he mera shabab
Mera na'ra he inquilab, inquilab, inquilab

'ഇന്ക്വിലാബ് സിന്ദാബാദ്'  'വിപ്ലവം നീണാൾ വാഴട്ടെ' എന്ന മുദ്രാവാക്യത്തിന്റെ  ഉപജ്ഞാതാവ് ഹസ്രത് മൊഹാനി എന്ന ഉർദു കവിയാണ്. 
:ഉർദുയെ മുഅല്ല'  എന്നൊരു പത്രം അദ്ദേഹം പ്രസിദ്ധീകരിച്ചിരുന്നു.
കൂടുതൽ അറിവിനായി ഈ വീഡിയോ കാണൂ:-



ചില  വരികൾ;-

اتوار، 23 اگست، 2020

تاج محل


تاج محل


تاج محل یعنی مقبرہ ملکہ ممتاز محل زوجہ شاہ جہاں (1627ء – 1659ء) بھارت کے شہر آگرہ میں واقع سنگ مرمر سے بنی ایک عظیم الشان عمارت ہے جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی زوجہ کی محبت کی لافانی یادگار کے طور پر دریائے جمنا کے ساحل پر بنایا تھا۔ تاج محل اپنے فن تعمیر کی خوبیوں اور خصوصیتوں کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے اور عجائبات عالم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے نظم و نثر میں تاج محل اور اس کے عجائب پر 
اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ ان سب کا احاطہ بے حد مشکل ہے۔


تاج محل مغل طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کی تعمیراتی طرز فارسی، ترک، بھارتی اور اسلامی طرز تعمیر کے اجزاء کا انوکھا ملاپ ہے۔ 1983ء میں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثے میں شمار کیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی، بہترین تعمیرات میں سے ایک بتایا گیا۔ تاج محل کو بھارت کے اسلامی فن کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا گیا ہے۔ یہ تقریباً 1648ء میں مکمل تعمیر کیا گیا۔ استاد احمد لاهوری کو عام طور پر اس کا معمار خیال کیا جاتا ہے
                                                    تعمیر
مغل بادشاہ شاہجہان کی بیوی ممتاز محل کا مقبرہ جو بھارت کے شہر آگرہ میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، لیکن بادشاہ نامے میں لکھا ہے کہ خود شاہ جہاں نے اس کا خاکہ تیار کیا۔ یہ عمارت 1632ء سے 1650ء تک کل25 سال میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے۔ عمارت کی مرمری دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے۔ مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے 7 میٹر اونچا ہے، سنگ سرخ کا ہے۔ اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف، کرسی کے نیچے ایک حوض ہے۔ جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہجہان کی قبریں ہیں۔
سیاحت

ہر سال اس تاریخی یادگار کو 30 لاکھ افراد دیکھنے آتے ہیں۔ یہ تعداد بھارت کے کسی بھی سیاحتی مقام پر آنے والے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ تاج محل مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے اور ایک ایسی بے مثال عمارت ہے جو تعمیر کے بعد ہی سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی۔ محبت کی یہ لازوال نشانی شاعروں، ادیبوں، مصوروں اور فنکاروں کے لیے اگرچہ وجدان کا محرک رہی ہے لیکن حقیقت میں ایک مقبرہ ہے۔ سن 1874 میں برطانوی سیاح ایڈورڈ لئیر نے کہا تھا کہ

دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جنہوں نے تاج محل کا دیدار کیا اور دوسرے جو اس سے محروم رہے ۔


پیلا تاج محل

آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث محبت کی اس عظیم یادگار کی رنگت سفید سے پیلی ہو گئی ہے۔ یہ بات مئی 2007ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے تاج محل کے جگمگاتے سفید سنگ مر مر کو نقصان پہنچا۔ آلودگی کے باعث اس تاریخی یادگار کی حقیقی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں تاج محل کی خوبصورتی بچانے اور سنگ مر مر کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے کے لیے اسے صاف کرنے کی سفارش کی گئی-


عجوبہ

2007 میں ایک بین الاقوامی مقابلے کے ذریعے طے پانے والے دورِ جدید کے سات عجائبات میں آگرہ کے تاج محل کو بھی شامل کیا گیا



ہفتہ، 22 اگست، 2020

مومن خان مومن

غالب اور ذوق کے ہم عصر۔ وہ حکیم ، ماہر نجوم اور شطرنج کے کھلاڑی بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب نے ان کے شعر ’ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا/ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘ پر اپنا پورا دیوان دینے کی بات کہی تھی
مومن خان مومن

مومن خان مومن (پیدائش: 1801ء— وفات: 14 مئی 1852ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔

سوانح:-

مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔

دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ مومن کی یادگار ایک دیوان اور چھ مثنویاں ہیں۔ 1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔

مومن کی جنسی توانائی کا اظہار عملی زندگی سے ہی نہیں بلکہ کلام سے بھی ہوتا ہے۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔

ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

یہ وہی انداز ہے جس نے داغ دہلوی کے پاس جاکر رنڈی بازی کی صورت اختیار کر لی۔ اگر خالص جنس نگاری کے لحاظ سے دیکھیں تو مومن غالب سے بڑھ جاتے ہیں۔ صرف اشعار کی تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ شدت اور وارفتگی میں بھی غالب کے ہاں بعض اوقات جنس کو مزاح وغیرہ سے کیمو فلاج کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ لیکن مومن کا انداز کسی حقیقت نگار کا ہے۔ البتہ رشک میں دونوں کا یکساں حال ہے۔ یہی نہیں بلکہ مومن نے آواز سے اپنی خصوصی جنسی دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔ اسی طرح بعض ملبوسات اورزیورات سے وابستہ جنسی تلازمات بھی ابھارے گئے ہیں اور ایسی غزلوں کی بھی کمی نہیں جن میں واضح طور پر ایسے اشارات کیے کہ کسی مخصوص ہستی کی جھلک دیکھنے پربھی اتنا اندازہ لگانا دشوار نہیں رہتا کہ خطاب صنف مخالف سے ہے اور لاجنس شاعری کے اس دور میں یہ بہت بڑی بات ہے۔

مومن کےبارے میں ایک ویڈیو ہم کو دھکھیں:-


  مومن خان مومن  ایک منفرد غزل گو شاعر


مومن، ذوق اور غالب کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار امراء میں ہوتا تھا ۔ وہ زندہ دل اور باذوق آدمی تھے۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
یہ مومن کا وہ شعر ہے، مرزا غالب جس کے بدلے مرزا اپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے۔

مومن کو اردو کا خالص غزل گو شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی غزلیات میں عاشق و معشوق کے دلوں کی واردات، حسن و عشق اور نفسیاتِ محبت کی باتیں ملتی ہیں۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مومن کی غزل کا بنیادی موضوع حسن اور عشق ہے ۔ وہ صرف غزل گو تھے اور اس میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

اس غیرت ناہید کی ہرتان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
۔۔۔

ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے

مومن کی غزل میں اعتدال اور حسن برقرار رہتا ہے اور لطیف احساسات کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی وعدہ یعنی نباہ کا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ان کے وہ اشعار جن میں بظاہر ابہام پایا جاتا ہے اپنے اندر معنی خیزی کے ساتھ ساتھ پیچیدگئِ حسن بھی رکھتے ہیں:

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن

رات کاٹی خدا خدا کرکے
۔۔۔۔

اس نقش پا کے سجدے نےکیا کیا کیا ذلیل

میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

۔۔۔

کچھ نہیں نظر آتا آنکھ لگتے ہی ناصح

گر نہیں یقیں حضرت، آپ بھی لگا دیکھیں

مومن کی زبان میں سادگی اور بیان میں حسن موجود ہے ان کے زبان و بیان میں دلکشی ہے اور وہ اپنی انہی صلاحیتیوں کی بنا پر سادہ سے سادہ الفاظ میں بھی ایک دنیا آباد کر جاتے ہیں۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے

ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

۔۔۔

ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم

منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم

مومن نے اپنے تخلص کا بہت پہلودار استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے تخلص سے جتنے معنی اور مضامیں اپنی شاعری میں پیدا کیے ہیں ، شاید ہی کسی نے کیے ہوں:

ہرگز نہ رام وہ صنم سنگدل ہوا

مومن ہزار حیف کہ ایماں عبث گیا

۔۔۔
پیہم سجود پائے صنم پر دم و داع

مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں

مومن نے چھ مثنویاں بھی لکھی ہیں۔ ممتاز محقق، ڈاکٹر سلیم اختر ایک جگہ لکھتے ہیں

’’مومن نے ہر عشق پر ایک مثنوی بھی لکھی اور کیا پتہ ایسے عشق بھی ہوں، جن پر مثنویاں لکھنے کی نوبت ہی نہ آئی ہو ۔ ‘

ڈاکٹر سلیم اختر ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

’’ بہت کم شاعروں کے مزاج میں مومن جیسی رنکا رنگی ملے گی۔طب، نجوم، رمل، موسیقی، شطرنج اور عملیات وغیرہ سے خصوصی شغف تو تھا ہی لیکن شاعری اور اس کے ساتھ ساتھ مجاز عشق میں بھی خصوصی مہارت پیدا کی۔‘‘

جس دور میں مومن نے نشوونما پائی وہ مغلیہ دور کے زوال کا زمانہ تھا۔ جاگیردار طبقہ عیش و عشرت میں مست تھا مومن بھی اس رنگ میں رنگے ہوئے تھے لیکن بڑھاپے میں گویا تائب ہو گئے۔وہ خود کہتے ہیں:

عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن

آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

مومن کا پورا نام مومن خان اور مومن تخلص تھا۔ آپ کے والد حکیم غلام نبی تھے اور دادا حکیم نامداد، شاہ عالم کے طبیب تھے اور شاہ عالم کے دور میں انہیں چند گاوں جاگیر کے طور پر ملے تھے۔ مومن چونکہ کشمیری تھے اس لیے کشمیر کا حسن بھی مومن کو عطا ہوا تھا۔ شاعری کا بچپن سےہی شوق تھا،شروع شروع میں اپنا کلام شاہ نصیر کو دکھایا کرتے تھے لیکن جلد ہی مہارت حاصل کر لی اور صاحب طرز شاعر بن گئے۔ مومن، ذوق اور غالب کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار امراء میں ہوتا تھا ۔ وہ زندہ دل اور باذوق آدمی تھے۔

مومن نجومی بھی تھے۔ انہوں نے اپنے یوم وفات کی پیش گوئی بھی کی اور دست و بازو ٹوٹنے کا ذکر بھی کیا۔ وہ 1851ء میں چھت سے گر پڑے اور کچھ عرصے بعد راہی اجل ہوئے۔

پروانے کو کس لیے جلایا تھا اے شمع

بے جرم کو خاک میں ملایا اے شمع
خصوصیات کلام یا شاعرانہ عظمت
مومن نے یوں تو بہت سی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی شہرت ان کی غزلوں کی وجہ سے ہے جہاں حسن و عشق کا ایک نگارخانہ آباد نظر آتا ہے۔یہ غزلیں اپنے بانکپن، شگفتگی اور رنگینی کے اعتبار سے ایک سدا بہار عظمت کی حامل ہیں۔مومن نے غزل کی روایات کو بڑی کامیابی کے ساتھ ہر جگہ برقرار رکھا ہے۔اس کے خدوخال بڑے دلکش انداز میں ابھارے ہیں۔

غالب کے بعد مومن عہد زرین کے دوسرے بڑے شاعر ہیں۔غزل ان کا اصل میدان ہے اور ان کی غزل کا دائرہ حسن و عشق تک محدود ہے لیکن اس محدود دائرے میں انہوں نے ایسے کمال کا مظاہرہ کیا ہے کہ آج اتنا زمانہ بدل جانے کے بعد بھی اہل نظر ان کی غزل پر فریفتہ ہیں۔
غزل اپنے اصل معنی میں عورتوں سے گفتگو یا عورتوں کے بارے میں گفتگو ہے یعنی اس میں حسن و عشق کی باتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ اس میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور زندگی کے تمام موضوعات اس میں داخل ہوگئے۔لیکن مومن کی غزل حسن و عشق ہی کے گرد گھومتی ہے۔گویا انہوں نے اپنی غزل کا دائرہ محدود کردیا لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ اسی محدود دائرے میں انہوں نے جدت پیدا کی ہے اور معاملات عشق کی جزئیات کو ایسی خوبصورتی اور فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے کہ نہ کہیں پستی کا احساس ہوتا ہے اور نہ یکسانیت کاممکن ہے-
 غزل مومن کی اس خصوصیت کا سبب یہ ہوا کہ مومن نے زندگی میں واقعتاً عشق کیا تھا اور ایک پردہ نشین خاتون کو چاہا تھا۔یہ شاعرہ تھی اور حجاب تخلص کرتی تھی۔مومن کے کلام میں اس کے اشارے ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شعروں میں اصلیت کا رنگ پیدا ہو گیا ہے اور جذبات کی شدت بھی صاف ظاہر ہوتی ہے۔مختصر یہ کہ انہوں نے عاشقانہ مضامین ایسے دلکش انداز میں پیش کیے ہیں کہ قدم قدم پر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔اس سے تغزل کی نرالی شان پیدا ہوگئی ہے۔انہیں تشبیہوں اور استعاروں کے برتنے کا بہت سلیقہ ہے۔نازک خیالی اور مضمون آفرینی کلام مومن کی اہم خصوصیات ہیں۔
مومن نے اردو غزل میں ایک اچھوتے انداز کی بنیاد ڈالی اور اپنی بات کہنے کا ایک ڈھنگ نکالا۔وہ اپنے محبوب سے کوئی بات اس طرح کہتے ہیں جیسے اسی کے بھلے کی کہہ رہے ہوں اور اس میں محبوب ہی کا فائدہ مد نظر ہو لیکن ذرا غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو صرف بات کہنے کا انداز ہے ورنہ فائدہ اپنا ہی مقصود ہے۔مثلا اپنے محبوب سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم محفل میں چوری چوری میرے رقیبوں کو دیکھ رہے ہو لیکن اس سے تمہاری بدنامی ہوگی۔ اگر یہ رسوائی گوارا ہے تو شوق سے ان کی طرف دیکھو؀

محفل میں تم اغیار کو ذر دیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو
ایک جگہ کہتے ہیں محفل میں تم سب کی طرف دیکھتے ہو مگر مجھ سے نظریں چرا لیتے ہو۔اس سے تو لوگ یہ سمجھیں گے کچھ دال میں کالا ہے۔اس لئے کبھی کبھی میری طرف بھی دیکھ لیا کرو۔؀

غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزہ غماز دیکھنا
ایسے مضامین سے کہیں کہیں الجھاؤ اور پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ شاعری میں ابہام حسن ہے یعنی بات کو کھول کر بیان نہ کیا جائے لیکن ابہام اتنا زیادہ ہو کہ شعر پہلی بن جائے تو یہی عیب بن جاتا ہے۔مومن کے کلام میں اکثر جگہ ابہام اس طرح ہے کہ وہ حسن بن جاتا ہے لیکن کہیں کہیں یہ صفت عیب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔کیونکہ پڑھنے والے کا ذہن شعر کے اصل مفہوم تک نہیں پہنچ پاتا۔بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لفظ معنی کاساتھ نہیں دیتے یعنی شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ لفظوں سے ادا نہیں ہوتا۔
مومن غزل کے شاعر ہیں۔ درباری زندگی اور مدح گوئی کو انہوں نے پسند نہیں کیا۔بادشاہوں اور امیروں کی خوشامد انہیں گوارا نہیں ہوئی۔تاہم ان کے دیوان میں چند قصیدے بھی موجود ہیں اور اپنے رنگ میں خوب ہیں۔بزرگان دین کی مدح سرائی کو مومن باعث عزت اور موجب نجات خیال کرتے تھے۔مومن نے اردو میں کل 9 قصیدے لکھے ہیں جن میں دو قصیدہ حمدونعت کے ہیں، 4 قصائد خلفائے راشدین کی شان میں، ایک قصیدہ امام حسین کی شان میں،ایک قصیدہ وزیرالدولہ امیر الملک نواب محمد وزیر خان والی ٹونک کی تعریف میں اور ایک قصیدہ ہتھنی کے شکرانہ کے طور پر ریئس پٹیالہ کے بھائی راجا اجیت سنگھ کی تعریف میں۔یعنی مومن نے7 مذہبی اور 2 غیر مذہبی قصیدے لکھے ہیں۔
مومن نے مثنویاں بھی کہی ہیں۔ان میں زندگی کی حقیقیتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی مثنویوں میں زندگی کی سیدھی اور سچی باتیں آسان اور رواں زبان میں پیش کی گئی ہیں۔ لیکن یہاں بھی ان کی توجہ کا اصل مرکز معاملات عشق ہی ہے۔ان کی کلیات میں کل 12 مثنویاں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:-
(١) شکایت ستم
(٢) قصہ غم
(٣) قول غمیں
(٤) کف اتشیں
(٥) حسنین مغموم
(٦) آہ وزاری مظلوم
(٧) مثنوی جہاد
(٨) اسرار عشق
(٩) در ماتم حکیم غلام نبی خان
(١٠) نکاح یار جانی کی تاریخ
(١١) نامۂ مومن جاں باز بہ جانب محبوبہ دل نواز
(١٢) نامہ با سوزوگداز بہ سمت معشوقہ طناب۔

مومن کی پہلی مثنوی "شکایت ستم” ہے جو انھوں نے سولہ سال کی عمر میں لکھی تھی۔ان کی 12 مثنویوں میں سے 6 کا موضوع خود ان ہی کا عشق ہے۔

مومن کو علم نجوم میں بڑی مہارت حاصل تھی اکثر حساب لگا کر کوئی بات بتاتے تھے اور وہ عموما پوری ہوتی تھی۔تاریخ گوئی میں بھی مومن کو کمال حاصل تھا۔نت نئے انداز کی تاریخیں کہتے تھے جن میں ظرافت بھی پیدا ہوجاتی تھی۔موت سے چند مہینے پہلے مومن گر پڑے تھے۔ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے تھے اس حادثہ کی تعریف کہی جو آخرکار موت کی تاریخ بھی ثابت ہوئی اور ان کے مزار پر کندہ ہے۔

دست و بازو بشکست (یعنی ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے)
مومن کی شاعری کو "مکر شاعرانہ” کا نام ضیاء احمد بدایونی نے دیا تھا۔ان کے ایک شعر کے متعلق غالب نے فرمایا تھا کہ اگر مومن مجھے اپنا یہ شعر دے دیں تو میں ان کو اپنا پورا دیوان دینے کو تیار ہوں۔وہ شعر یہ ہے۔؀

اسی طرح نیاز فتح پوری نے کہا تھا”اگر میرے سامنے تمام شعرائے متقدمین کے کلام رکھ کر مجھ کو صرف ایک دیوان حاصل کرنے کی اجازت دی جائے تو میں بلا تامل کہہ دونگا کہ مجھے کلیات مومن دے دو باقی سب اٹھا لے جاؤ”اس عبارت سے بھی مومن کی اردو شاعری میں عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بے شک مومن ایک بہت ہی اعلی پائے کے شاعر تھے اور رہتی دنیا تک ہمیشہ ان کا نام زندہ جاوید رہے گا۔
مومن  کا منتخب شدہ اشعار ;-
*
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا 

رنج راحت فزا نہیں ہوتا 

بے وفا کہنے کی شکایت ہے 

تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا 

ذکر اغیار سے ہوا معلوم 

حرف ناصح برا نہیں ہوتا 

کس کو ہے ذوق تلخ کامی لیک 

جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا 

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے 

ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا 

اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر 

دل کسی کام کا نہیں ہوتا 

امتحاں کیجئے مرا جب تک 

شوق زور آزما نہیں ہوتا 

ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے 

تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا 

آہ طول امل ہے روز فزوں 

گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا 

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا 

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا


*
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر 

مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں 

وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو 

وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم 

گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی 

تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی 

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا 

سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی 

تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا 

وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا 

میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


*
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح 

اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح 

آتا نہیں ہے وہ تو کسی ڈھب سے داؤ میں 

بنتی نہیں ہے ملنے کی اس کے کوئی طرح 

تشبیہ کس سے دوں کہ طرح دار کی مرے 

سب سے نرالی وضع ہے سب سے نئی طرح 

مر چک کہیں کہ تو غم ہجراں سے چھوٹ جائے 

کہتے تو ہیں بھلے کی ولیکن بری طرح 

نے تاب ہجر میں ہے نہ آرام وصل میں 

کم بخت دل کو چین نہیں ہے کسی طرح 

لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی 

قربان تیرے پھر مجھے کہہ لے اسی طرح 

پامال ہم نہ ہوتے فقط جور چرخ سے 

آئی ہماری جان پہ آفت کئی طرح 

نے جائے واں بنے ہے نہ بن جائے چین ہے 

کیا کیجیے ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح 

معشوق اور بھی ہیں بتا دے جہان میں 

کرتا ہے کون ظلم کسی پر تری طرح 

ہوں جاں بہ لب بتان ستم گر کے ہاتھ سے 

کیا سب جہاں میں جیتے ہیں مومنؔ اسی طرح


شکریہ-

محمد حسن

             پروفیسر محمد حسن:-      پروفیسر محمد حسن کا شمار ہندوستان کے مشہور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ محمد حسن مراد آباد ( ...