غالب اور ذوق کے ہم عصر۔ وہ حکیم ، ماہر نجوم اور شطرنج کے کھلاڑی بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب نے ان کے شعر ’ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا/ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘ پر اپنا پورا دیوان دینے کی بات کہی تھی
مومن خان مومن (پیدائش: 1801ء— وفات: 14 مئی 1852ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔
سوانح:-
مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔
دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ مومن کی یادگار ایک دیوان اور چھ مثنویاں ہیں۔ 1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔
مومن کی جنسی توانائی کا اظہار عملی زندگی سے ہی نہیں بلکہ کلام سے بھی ہوتا ہے۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔
ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا
یہ وہی انداز ہے جس نے داغ دہلوی کے پاس جاکر رنڈی بازی کی صورت اختیار کر لی۔ اگر خالص جنس نگاری کے لحاظ سے دیکھیں تو مومن غالب سے بڑھ جاتے ہیں۔ صرف اشعار کی تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ شدت اور وارفتگی میں بھی غالب کے ہاں بعض اوقات جنس کو مزاح وغیرہ سے کیمو فلاج کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ لیکن مومن کا انداز کسی حقیقت نگار کا ہے۔ البتہ رشک میں دونوں کا یکساں حال ہے۔ یہی نہیں بلکہ مومن نے آواز سے اپنی خصوصی جنسی دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔ اسی طرح بعض ملبوسات اورزیورات سے وابستہ جنسی تلازمات بھی ابھارے گئے ہیں اور ایسی غزلوں کی بھی کمی نہیں جن میں واضح طور پر ایسے اشارات کیے کہ کسی مخصوص ہستی کی جھلک دیکھنے پربھی اتنا اندازہ لگانا دشوار نہیں رہتا کہ خطاب صنف مخالف سے ہے اور لاجنس شاعری کے اس دور میں یہ بہت بڑی بات ہے۔
مومن کےبارے میں ایک ویڈیو ہم کو دھکھیں:-
مومن خان مومن ایک منفرد غزل گو شاعر
مومن، ذوق اور غالب کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار امراء میں ہوتا تھا ۔ وہ زندہ دل اور باذوق آدمی تھے۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
یہ مومن کا وہ شعر ہے، مرزا غالب جس کے بدلے مرزا اپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے۔
مومن کو اردو کا خالص غزل گو شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی غزلیات میں عاشق و معشوق کے دلوں کی واردات، حسن و عشق اور نفسیاتِ محبت کی باتیں ملتی ہیں۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مومن کی غزل کا بنیادی موضوع حسن اور عشق ہے ۔ وہ صرف غزل گو تھے اور اس میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
اس غیرت ناہید کی ہرتان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
۔۔۔
ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
مومن کی غزل میں اعتدال اور حسن برقرار رہتا ہے اور لطیف احساسات کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ان کے وہ اشعار جن میں بظاہر ابہام پایا جاتا ہے اپنے اندر معنی خیزی کے ساتھ ساتھ پیچیدگئِ حسن بھی رکھتے ہیں:
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کرکے
۔۔۔۔
اس نقش پا کے سجدے نےکیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
۔۔۔
کچھ نہیں نظر آتا آنکھ لگتے ہی ناصح
گر نہیں یقیں حضرت، آپ بھی لگا دیکھیں
مومن کی زبان میں سادگی اور بیان میں حسن موجود ہے ان کے زبان و بیان میں دلکشی ہے اور وہ اپنی انہی صلاحیتیوں کی بنا پر سادہ سے سادہ الفاظ میں بھی ایک دنیا آباد کر جاتے ہیں۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
۔۔۔
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
مومن نے اپنے تخلص کا بہت پہلودار استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے تخلص سے جتنے معنی اور مضامیں اپنی شاعری میں پیدا کیے ہیں ، شاید ہی کسی نے کیے ہوں:
ہرگز نہ رام وہ صنم سنگدل ہوا
مومن ہزار حیف کہ ایماں عبث گیا
۔۔۔
پیہم سجود پائے صنم پر دم و داع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں
مومن نے چھ مثنویاں بھی لکھی ہیں۔ ممتاز محقق، ڈاکٹر سلیم اختر ایک جگہ لکھتے ہیں
’’مومن نے ہر عشق پر ایک مثنوی بھی لکھی اور کیا پتہ ایسے عشق بھی ہوں، جن پر مثنویاں لکھنے کی نوبت ہی نہ آئی ہو ۔ ‘
ڈاکٹر سلیم اختر ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔
’’ بہت کم شاعروں کے مزاج میں مومن جیسی رنکا رنگی ملے گی۔طب، نجوم، رمل، موسیقی، شطرنج اور عملیات وغیرہ سے خصوصی شغف تو تھا ہی لیکن شاعری اور اس کے ساتھ ساتھ مجاز عشق میں بھی خصوصی مہارت پیدا کی۔‘‘
جس دور میں مومن نے نشوونما پائی وہ مغلیہ دور کے زوال کا زمانہ تھا۔ جاگیردار طبقہ عیش و عشرت میں مست تھا مومن بھی اس رنگ میں رنگے ہوئے تھے لیکن بڑھاپے میں گویا تائب ہو گئے۔وہ خود کہتے ہیں:
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
مومن کا پورا نام مومن خان اور مومن تخلص تھا۔ آپ کے والد حکیم غلام نبی تھے اور دادا حکیم نامداد، شاہ عالم کے طبیب تھے اور شاہ عالم کے دور میں انہیں چند گاوں جاگیر کے طور پر ملے تھے۔ مومن چونکہ کشمیری تھے اس لیے کشمیر کا حسن بھی مومن کو عطا ہوا تھا۔ شاعری کا بچپن سےہی شوق تھا،شروع شروع میں اپنا کلام شاہ نصیر کو دکھایا کرتے تھے لیکن جلد ہی مہارت حاصل کر لی اور صاحب طرز شاعر بن گئے۔ مومن، ذوق اور غالب کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار امراء میں ہوتا تھا ۔ وہ زندہ دل اور باذوق آدمی تھے۔
مومن نجومی بھی تھے۔ انہوں نے اپنے یوم وفات کی پیش گوئی بھی کی اور دست و بازو ٹوٹنے کا ذکر بھی کیا۔ وہ 1851ء میں چھت سے گر پڑے اور کچھ عرصے بعد راہی اجل ہوئے۔
پروانے کو کس لیے جلایا تھا اے شمع
بے جرم کو خاک میں ملایا اے شمع
خصوصیات کلام یا شاعرانہ عظمت
مومن نے یوں تو بہت سی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی شہرت ان کی غزلوں کی وجہ سے ہے جہاں حسن و عشق کا ایک نگارخانہ آباد نظر آتا ہے۔یہ غزلیں اپنے بانکپن، شگفتگی اور رنگینی کے اعتبار سے ایک سدا بہار عظمت کی حامل ہیں۔مومن نے غزل کی روایات کو بڑی کامیابی کے ساتھ ہر جگہ برقرار رکھا ہے۔اس کے خدوخال بڑے دلکش انداز میں ابھارے ہیں۔
غالب کے بعد مومن عہد زرین کے دوسرے بڑے شاعر ہیں۔غزل ان کا اصل میدان ہے اور ان کی غزل کا دائرہ حسن و عشق تک محدود ہے لیکن اس محدود دائرے میں انہوں نے ایسے کمال کا مظاہرہ کیا ہے کہ آج اتنا زمانہ بدل جانے کے بعد بھی اہل نظر ان کی غزل پر فریفتہ ہیں۔
غزل اپنے اصل معنی میں عورتوں سے گفتگو یا عورتوں کے بارے میں گفتگو ہے یعنی اس میں حسن و عشق کی باتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ اس میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور زندگی کے تمام موضوعات اس میں داخل ہوگئے۔لیکن مومن کی غزل حسن و عشق ہی کے گرد گھومتی ہے۔گویا انہوں نے اپنی غزل کا دائرہ محدود کردیا لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ اسی محدود دائرے میں انہوں نے جدت پیدا کی ہے اور معاملات عشق کی جزئیات کو ایسی خوبصورتی اور فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے کہ نہ کہیں پستی کا احساس ہوتا ہے اور نہ یکسانیت کاممکن ہے-
غزل مومن کی اس خصوصیت کا سبب یہ ہوا کہ مومن نے زندگی میں واقعتاً عشق کیا تھا اور ایک پردہ نشین خاتون کو چاہا تھا۔یہ شاعرہ تھی اور حجاب تخلص کرتی تھی۔مومن کے کلام میں اس کے اشارے ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شعروں میں اصلیت کا رنگ پیدا ہو گیا ہے اور جذبات کی شدت بھی صاف ظاہر ہوتی ہے۔مختصر یہ کہ انہوں نے عاشقانہ مضامین ایسے دلکش انداز میں پیش کیے ہیں کہ قدم قدم پر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔اس سے تغزل کی نرالی شان پیدا ہوگئی ہے۔انہیں تشبیہوں اور استعاروں کے برتنے کا بہت سلیقہ ہے۔نازک خیالی اور مضمون آفرینی کلام مومن کی اہم خصوصیات ہیں۔
مومن نے اردو غزل میں ایک اچھوتے انداز کی بنیاد ڈالی اور اپنی بات کہنے کا ایک ڈھنگ نکالا۔وہ اپنے محبوب سے کوئی بات اس طرح کہتے ہیں جیسے اسی کے بھلے کی کہہ رہے ہوں اور اس میں محبوب ہی کا فائدہ مد نظر ہو لیکن ذرا غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو صرف بات کہنے کا انداز ہے ورنہ فائدہ اپنا ہی مقصود ہے۔مثلا اپنے محبوب سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم محفل میں چوری چوری میرے رقیبوں کو دیکھ رہے ہو لیکن اس سے تمہاری بدنامی ہوگی۔ اگر یہ رسوائی گوارا ہے تو شوق سے ان کی طرف دیکھو
محفل میں تم اغیار کو ذر دیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو
ایک جگہ کہتے ہیں محفل میں تم سب کی طرف دیکھتے ہو مگر مجھ سے نظریں چرا لیتے ہو۔اس سے تو لوگ یہ سمجھیں گے کچھ دال میں کالا ہے۔اس لئے کبھی کبھی میری طرف بھی دیکھ لیا کرو۔
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزہ غماز دیکھنا
ایسے مضامین سے کہیں کہیں الجھاؤ اور پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ شاعری میں ابہام حسن ہے یعنی بات کو کھول کر بیان نہ کیا جائے لیکن ابہام اتنا زیادہ ہو کہ شعر پہلی بن جائے تو یہی عیب بن جاتا ہے۔مومن کے کلام میں اکثر جگہ ابہام اس طرح ہے کہ وہ حسن بن جاتا ہے لیکن کہیں کہیں یہ صفت عیب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔کیونکہ پڑھنے والے کا ذہن شعر کے اصل مفہوم تک نہیں پہنچ پاتا۔بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لفظ معنی کاساتھ نہیں دیتے یعنی شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ لفظوں سے ادا نہیں ہوتا۔
مومن غزل کے شاعر ہیں۔ درباری زندگی اور مدح گوئی کو انہوں نے پسند نہیں کیا۔بادشاہوں اور امیروں کی خوشامد انہیں گوارا نہیں ہوئی۔تاہم ان کے دیوان میں چند قصیدے بھی موجود ہیں اور اپنے رنگ میں خوب ہیں۔بزرگان دین کی مدح سرائی کو مومن باعث عزت اور موجب نجات خیال کرتے تھے۔مومن نے اردو میں کل 9 قصیدے لکھے ہیں جن میں دو قصیدہ حمدونعت کے ہیں، 4 قصائد خلفائے راشدین کی شان میں، ایک قصیدہ امام حسین کی شان میں،ایک قصیدہ وزیرالدولہ امیر الملک نواب محمد وزیر خان والی ٹونک کی تعریف میں اور ایک قصیدہ ہتھنی کے شکرانہ کے طور پر ریئس پٹیالہ کے بھائی راجا اجیت سنگھ کی تعریف میں۔یعنی مومن نے7 مذہبی اور 2 غیر مذہبی قصیدے لکھے ہیں۔
مومن نے مثنویاں بھی کہی ہیں۔ان میں زندگی کی حقیقیتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی مثنویوں میں زندگی کی سیدھی اور سچی باتیں آسان اور رواں زبان میں پیش کی گئی ہیں۔ لیکن یہاں بھی ان کی توجہ کا اصل مرکز معاملات عشق ہی ہے۔ان کی کلیات میں کل 12 مثنویاں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:-
(١) شکایت ستم
(٢) قصہ غم
(٣) قول غمیں
(٤) کف اتشیں
(٥) حسنین مغموم
(٦) آہ وزاری مظلوم
(٧) مثنوی جہاد
(٨) اسرار عشق
(٩) در ماتم حکیم غلام نبی خان
(١٠) نکاح یار جانی کی تاریخ
(١١) نامۂ مومن جاں باز بہ جانب محبوبہ دل نواز
(١٢) نامہ با سوزوگداز بہ سمت معشوقہ طناب۔
مومن کی پہلی مثنوی "شکایت ستم” ہے جو انھوں نے سولہ سال کی عمر میں لکھی تھی۔ان کی 12 مثنویوں میں سے 6 کا موضوع خود ان ہی کا عشق ہے۔
مومن کو علم نجوم میں بڑی مہارت حاصل تھی اکثر حساب لگا کر کوئی بات بتاتے تھے اور وہ عموما پوری ہوتی تھی۔تاریخ گوئی میں بھی مومن کو کمال حاصل تھا۔نت نئے انداز کی تاریخیں کہتے تھے جن میں ظرافت بھی پیدا ہوجاتی تھی۔موت سے چند مہینے پہلے مومن گر پڑے تھے۔ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے تھے اس حادثہ کی تعریف کہی جو آخرکار موت کی تاریخ بھی ثابت ہوئی اور ان کے مزار پر کندہ ہے۔
دست و بازو بشکست (یعنی ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے)
مومن کی شاعری کو "مکر شاعرانہ” کا نام ضیاء احمد بدایونی نے دیا تھا۔ان کے ایک شعر کے متعلق غالب نے فرمایا تھا کہ اگر مومن مجھے اپنا یہ شعر دے دیں تو میں ان کو اپنا پورا دیوان دینے کو تیار ہوں۔وہ شعر یہ ہے۔
اسی طرح نیاز فتح پوری نے کہا تھا”اگر میرے سامنے تمام شعرائے متقدمین کے کلام رکھ کر مجھ کو صرف ایک دیوان حاصل کرنے کی اجازت دی جائے تو میں بلا تامل کہہ دونگا کہ مجھے کلیات مومن دے دو باقی سب اٹھا لے جاؤ”اس عبارت سے بھی مومن کی اردو شاعری میں عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بے شک مومن ایک بہت ہی اعلی پائے کے شاعر تھے اور رہتی دنیا تک ہمیشہ ان کا نام زندہ جاوید رہے گا۔
مومن کا منتخب شدہ اشعار ;-
*
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکر اغیار سے ہوا معلوم
حرف ناصح برا نہیں ہوتا
کس کو ہے ذوق تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
امتحاں کیجئے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
آہ طول امل ہے روز فزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
*
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
*
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح
آتا نہیں ہے وہ تو کسی ڈھب سے داؤ میں
بنتی نہیں ہے ملنے کی اس کے کوئی طرح
تشبیہ کس سے دوں کہ طرح دار کی مرے
سب سے نرالی وضع ہے سب سے نئی طرح
مر چک کہیں کہ تو غم ہجراں سے چھوٹ جائے
کہتے تو ہیں بھلے کی ولیکن بری طرح
نے تاب ہجر میں ہے نہ آرام وصل میں
کم بخت دل کو چین نہیں ہے کسی طرح
لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی
قربان تیرے پھر مجھے کہہ لے اسی طرح
پامال ہم نہ ہوتے فقط جور چرخ سے
آئی ہماری جان پہ آفت کئی طرح
نے جائے واں بنے ہے نہ بن جائے چین ہے
کیا کیجیے ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح
معشوق اور بھی ہیں بتا دے جہان میں
کرتا ہے کون ظلم کسی پر تری طرح
ہوں جاں بہ لب بتان ستم گر کے ہاتھ سے
کیا سب جہاں میں جیتے ہیں مومنؔ اسی طرح
شکریہ-
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں