تاج محل یعنی مقبرہ ملکہ ممتاز محل زوجہ شاہ جہاں (1627ء – 1659ء) بھارت کے شہر آگرہ میں واقع سنگ مرمر سے بنی ایک عظیم الشان عمارت ہے جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی زوجہ کی محبت کی لافانی یادگار کے طور پر دریائے جمنا کے ساحل پر بنایا تھا۔ تاج محل اپنے فن تعمیر کی خوبیوں اور خصوصیتوں کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے اور عجائبات عالم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے نظم و نثر میں تاج محل اور اس کے عجائب پر
اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ ان سب کا احاطہ بے حد مشکل ہے۔
تاج محل مغل طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کی تعمیراتی طرز فارسی، ترک، بھارتی اور اسلامی طرز تعمیر کے اجزاء کا انوکھا ملاپ ہے۔ 1983ء میں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثے میں شمار کیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی، بہترین تعمیرات میں سے ایک بتایا گیا۔ تاج محل کو بھارت کے اسلامی فن کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا گیا ہے۔ یہ تقریباً 1648ء میں مکمل تعمیر کیا گیا۔ استاد احمد لاهوری کو عام طور پر اس کا معمار خیال کیا جاتا ہے
تعمیر
مغل بادشاہ شاہجہان کی بیوی ممتاز محل کا مقبرہ جو بھارت کے شہر آگرہ میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، لیکن بادشاہ نامے میں لکھا ہے کہ خود شاہ جہاں نے اس کا خاکہ تیار کیا۔ یہ عمارت 1632ء سے 1650ء تک کل25 سال میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے۔ عمارت کی مرمری دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے۔ مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے 7 میٹر اونچا ہے، سنگ سرخ کا ہے۔ اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف، کرسی کے نیچے ایک حوض ہے۔ جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہجہان کی قبریں ہیں۔
سیاحت
ہر سال اس تاریخی یادگار کو 30 لاکھ افراد دیکھنے آتے ہیں۔ یہ تعداد بھارت کے کسی بھی سیاحتی مقام پر آنے والے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ تاج محل مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے اور ایک ایسی بے مثال عمارت ہے جو تعمیر کے بعد ہی سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی۔ محبت کی یہ لازوال نشانی شاعروں، ادیبوں، مصوروں اور فنکاروں کے لیے اگرچہ وجدان کا محرک رہی ہے لیکن حقیقت میں ایک مقبرہ ہے۔ سن 1874 میں برطانوی سیاح ایڈورڈ لئیر نے کہا تھا کہ
دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جنہوں نے تاج محل کا دیدار کیا اور دوسرے جو اس سے محروم رہے ۔
پیلا تاج محل
آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث محبت کی اس عظیم یادگار کی رنگت سفید سے پیلی ہو گئی ہے۔ یہ بات مئی2007ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے تاج محل کے جگمگاتے سفید سنگ مر مر کو نقصان پہنچا۔ آلودگی کے باعث اس تاریخی یادگار کی حقیقی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں تاج محل کی خوبصورتی بچانے اور سنگ مر مر کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے کے لیے اسے صاف کرنے کی سفارش کی گئی-
عجوبہ
2007 میں ایک بین الاقوامی مقابلے کے ذریعے طے پانے والے دورِ جدید کے سات عجائبات میں آگرہ کے تاج محل کو بھی شامل کیا گیا
غالب اور ذوق کے ہم عصر۔ وہ حکیم ، ماہر نجوم اور شطرنج کے کھلاڑی بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب نے ان کے شعر ’ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا/ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘ پر اپنا پورا دیوان دینے کی بات کہی تھی
مومن خان مومن
مومن خان مومن (پیدائش: 1801ء— وفات: 14 مئی 1852ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔
سوانح:-
مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔
دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ مومن کی یادگار ایک دیوان اور چھ مثنویاں ہیں۔ 1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔
مومن کی جنسی توانائی کا اظہار عملی زندگی سے ہی نہیں بلکہ کلام سے بھی ہوتا ہے۔دبستان لکھنؤ کے شعرا کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعرا کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔
ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا
یہ وہی انداز ہے جس نے داغ دہلوی کے پاس جاکر رنڈی بازی کی صورت اختیار کر لی۔ اگر خالص جنس نگاری کے لحاظ سے دیکھیں تو مومن غالب سے بڑھ جاتے ہیں۔ صرف اشعار کی تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ شدت اور وارفتگی میں بھی غالب کے ہاں بعض اوقات جنس کو مزاح وغیرہ سے کیمو فلاج کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ لیکن مومن کا انداز کسی حقیقت نگار کا ہے۔ البتہ رشک میں دونوں کا یکساں حال ہے۔ یہی نہیں بلکہ مومن نے آواز سے اپنی خصوصی جنسی دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔ اسی طرح بعض ملبوسات اورزیورات سے وابستہ جنسی تلازمات بھی ابھارے گئے ہیں اور ایسی غزلوں کی بھی کمی نہیں جن میں واضح طور پر ایسے اشارات کیے کہ کسی مخصوص ہستی کی جھلک دیکھنے پربھی اتنا اندازہ لگانا دشوار نہیں رہتا کہ خطاب صنف مخالف سے ہے اور لاجنس شاعری کے اس دور میں یہ بہت بڑی بات ہے۔
مومن کےبارے میں ایک ویڈیو ہم کو دھکھیں:-
مومن خان مومن ایک منفرد غزل گو شاعر
مومن، ذوق اور غالب کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار امراء میں ہوتا تھا ۔ وہ زندہ دل اور باذوق آدمی تھے۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
یہ مومن کا وہ شعر ہے، مرزا غالب جس کے بدلے مرزا اپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے۔
مومن کو اردو کا خالص غزل گو شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی غزلیات میں عاشق و معشوق کے دلوں کی واردات، حسن و عشق اور نفسیاتِ محبت کی باتیں ملتی ہیں۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مومن کی غزل کا بنیادی موضوع حسن اور عشق ہے ۔ وہ صرف غزل گو تھے اور اس میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
اس غیرت ناہید کی ہرتان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
۔۔۔
ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
مومن کی غزل میں اعتدال اور حسن برقرار رہتا ہے اور لطیف احساسات کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ان کے وہ اشعار جن میں بظاہر ابہام پایا جاتا ہے اپنے اندر معنی خیزی کے ساتھ ساتھ پیچیدگئِ حسن بھی رکھتے ہیں:
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کرکے
۔۔۔۔
اس نقش پا کے سجدے نےکیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
۔۔۔
کچھ نہیں نظر آتا آنکھ لگتے ہی ناصح
گر نہیں یقیں حضرت، آپ بھی لگا دیکھیں
مومن کی زبان میں سادگی اور بیان میں حسن موجود ہے ان کے زبان و بیان میں دلکشی ہے اور وہ اپنی انہی صلاحیتیوں کی بنا پر سادہ سے سادہ الفاظ میں بھی ایک دنیا آباد کر جاتے ہیں۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
۔۔۔
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
مومن نے اپنے تخلص کا بہت پہلودار استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے تخلص سے جتنے معنی اور مضامیں اپنی شاعری میں پیدا کیے ہیں ، شاید ہی کسی نے کیے ہوں:
ہرگز نہ رام وہ صنم سنگدل ہوا
مومن ہزار حیف کہ ایماں عبث گیا
۔۔۔
پیہم سجود پائے صنم پر دم و داع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں
مومن نے چھ مثنویاں بھی لکھی ہیں۔ ممتاز محقق، ڈاکٹر سلیم اختر ایک جگہ لکھتے ہیں
’’مومن نے ہر عشق پر ایک مثنوی بھی لکھی اور کیا پتہ ایسے عشق بھی ہوں، جن پر مثنویاں لکھنے کی نوبت ہی نہ آئی ہو ۔ ‘
ڈاکٹر سلیم اختر ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔
’’ بہت کم شاعروں کے مزاج میں مومن جیسی رنکا رنگی ملے گی۔طب، نجوم، رمل، موسیقی، شطرنج اور عملیات وغیرہ سے خصوصی شغف تو تھا ہی لیکن شاعری اور اس کے ساتھ ساتھ مجاز عشق میں بھی خصوصی مہارت پیدا کی۔‘‘
جس دور میں مومن نے نشوونما پائی وہ مغلیہ دور کے زوال کا زمانہ تھا۔ جاگیردار طبقہ عیش و عشرت میں مست تھا مومن بھی اس رنگ میں رنگے ہوئے تھے لیکن بڑھاپے میں گویا تائب ہو گئے۔وہ خود کہتے ہیں:
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
مومن کا پورا نام مومن خان اور مومن تخلص تھا۔ آپ کے والد حکیم غلام نبی تھے اور دادا حکیم نامداد، شاہ عالم کے طبیب تھے اور شاہ عالم کے دور میں انہیں چند گاوں جاگیر کے طور پر ملے تھے۔ مومن چونکہ کشمیری تھے اس لیے کشمیر کا حسن بھی مومن کو عطا ہوا تھا۔ شاعری کا بچپن سےہی شوق تھا،شروع شروع میں اپنا کلام شاہ نصیر کو دکھایا کرتے تھے لیکن جلد ہی مہارت حاصل کر لی اور صاحب طرز شاعر بن گئے۔ مومن، ذوق اور غالب کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار امراء میں ہوتا تھا ۔ وہ زندہ دل اور باذوق آدمی تھے۔
مومن نجومی بھی تھے۔ انہوں نے اپنے یوم وفات کی پیش گوئی بھی کی اور دست و بازو ٹوٹنے کا ذکر بھی کیا۔ وہ 1851ء میں چھت سے گر پڑے اور کچھ عرصے بعد راہی اجل ہوئے۔
پروانے کو کس لیے جلایا تھا اے شمع
بے جرم کو خاک میں ملایا اے شمع
خصوصیات کلام یا شاعرانہ عظمت
مومن نے یوں تو بہت سی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی شہرت ان کی غزلوں کی وجہ سے ہے جہاں حسن و عشق کا ایک نگارخانہ آباد نظر آتا ہے۔یہ غزلیں اپنے بانکپن، شگفتگی اور رنگینی کے اعتبار سے ایک سدا بہار عظمت کی حامل ہیں۔مومن نے غزل کی روایات کو بڑی کامیابی کے ساتھ ہر جگہ برقرار رکھا ہے۔اس کے خدوخال بڑے دلکش انداز میں ابھارے ہیں۔
غالب کے بعد مومن عہد زرین کے دوسرے بڑے شاعر ہیں۔غزل ان کا اصل میدان ہے اور ان کی غزل کا دائرہ حسن و عشق تک محدود ہے لیکن اس محدود دائرے میں انہوں نے ایسے کمال کا مظاہرہ کیا ہے کہ آج اتنا زمانہ بدل جانے کے بعد بھی اہل نظر ان کی غزل پر فریفتہ ہیں۔
غزل اپنے اصل معنی میں عورتوں سے گفتگو یا عورتوں کے بارے میں گفتگو ہے یعنی اس میں حسن و عشق کی باتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ اس میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور زندگی کے تمام موضوعات اس میں داخل ہوگئے۔لیکن مومن کی غزل حسن و عشق ہی کے گرد گھومتی ہے۔گویا انہوں نے اپنی غزل کا دائرہ محدود کردیا لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ اسی محدود دائرے میں انہوں نے جدت پیدا کی ہے اور معاملات عشق کی جزئیات کو ایسی خوبصورتی اور فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے کہ نہ کہیں پستی کا احساس ہوتا ہے اور نہ یکسانیت کاممکن ہے-
غزل مومن کی اس خصوصیت کا سبب یہ ہوا کہ مومن نے زندگی میں واقعتاً عشق کیا تھا اور ایک پردہ نشین خاتون کو چاہا تھا۔یہ شاعرہ تھی اور حجاب تخلص کرتی تھی۔مومن کے کلام میں اس کے اشارے ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شعروں میں اصلیت کا رنگ پیدا ہو گیا ہے اور جذبات کی شدت بھی صاف ظاہر ہوتی ہے۔مختصر یہ کہ انہوں نے عاشقانہ مضامین ایسے دلکش انداز میں پیش کیے ہیں کہ قدم قدم پر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔اس سے تغزل کی نرالی شان پیدا ہوگئی ہے۔انہیں تشبیہوں اور استعاروں کے برتنے کا بہت سلیقہ ہے۔نازک خیالی اور مضمون آفرینی کلام مومن کی اہم خصوصیات ہیں۔
مومن نے اردو غزل میں ایک اچھوتے انداز کی بنیاد ڈالی اور اپنی بات کہنے کا ایک ڈھنگ نکالا۔وہ اپنے محبوب سے کوئی بات اس طرح کہتے ہیں جیسے اسی کے بھلے کی کہہ رہے ہوں اور اس میں محبوب ہی کا فائدہ مد نظر ہو لیکن ذرا غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو صرف بات کہنے کا انداز ہے ورنہ فائدہ اپنا ہی مقصود ہے۔مثلا اپنے محبوب سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم محفل میں چوری چوری میرے رقیبوں کو دیکھ رہے ہو لیکن اس سے تمہاری بدنامی ہوگی۔ اگر یہ رسوائی گوارا ہے تو شوق سے ان کی طرف دیکھو
محفل میں تم اغیار کو ذر دیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو
ایک جگہ کہتے ہیں محفل میں تم سب کی طرف دیکھتے ہو مگر مجھ سے نظریں چرا لیتے ہو۔اس سے تو لوگ یہ سمجھیں گے کچھ دال میں کالا ہے۔اس لئے کبھی کبھی میری طرف بھی دیکھ لیا کرو۔
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزہ غماز دیکھنا
ایسے مضامین سے کہیں کہیں الجھاؤ اور پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ شاعری میں ابہام حسن ہے یعنی بات کو کھول کر بیان نہ کیا جائے لیکن ابہام اتنا زیادہ ہو کہ شعر پہلی بن جائے تو یہی عیب بن جاتا ہے۔مومن کے کلام میں اکثر جگہ ابہام اس طرح ہے کہ وہ حسن بن جاتا ہے لیکن کہیں کہیں یہ صفت عیب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔کیونکہ پڑھنے والے کا ذہن شعر کے اصل مفہوم تک نہیں پہنچ پاتا۔بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لفظ معنی کاساتھ نہیں دیتے یعنی شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ لفظوں سے ادا نہیں ہوتا۔
مومن غزل کے شاعر ہیں۔ درباری زندگی اور مدح گوئی کو انہوں نے پسند نہیں کیا۔بادشاہوں اور امیروں کی خوشامد انہیں گوارا نہیں ہوئی۔تاہم ان کے دیوان میں چند قصیدے بھی موجود ہیں اور اپنے رنگ میں خوب ہیں۔بزرگان دین کی مدح سرائی کو مومن باعث عزت اور موجب نجات خیال کرتے تھے۔مومن نے اردو میں کل 9 قصیدے لکھے ہیں جن میں دو قصیدہ حمدونعت کے ہیں، 4 قصائد خلفائے راشدین کی شان میں، ایک قصیدہ امام حسین کی شان میں،ایک قصیدہ وزیرالدولہ امیر الملک نواب محمد وزیر خان والی ٹونک کی تعریف میں اور ایک قصیدہ ہتھنی کے شکرانہ کے طور پر ریئس پٹیالہ کے بھائی راجا اجیت سنگھ کی تعریف میں۔یعنی مومن نے7 مذہبی اور 2 غیر مذہبی قصیدے لکھے ہیں۔
مومن نے مثنویاں بھی کہی ہیں۔ان میں زندگی کی حقیقیتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی مثنویوں میں زندگی کی سیدھی اور سچی باتیں آسان اور رواں زبان میں پیش کی گئی ہیں۔ لیکن یہاں بھی ان کی توجہ کا اصل مرکز معاملات عشق ہی ہے۔ان کی کلیات میں کل 12 مثنویاں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:-
(١) شکایت ستم
(٢) قصہ غم
(٣) قول غمیں
(٤) کف اتشیں
(٥) حسنین مغموم
(٦) آہ وزاری مظلوم
(٧) مثنوی جہاد
(٨) اسرار عشق
(٩) در ماتم حکیم غلام نبی خان
(١٠) نکاح یار جانی کی تاریخ
(١١) نامۂ مومن جاں باز بہ جانب محبوبہ دل نواز
(١٢) نامہ با سوزوگداز بہ سمت معشوقہ طناب۔
مومن کی پہلی مثنوی "شکایت ستم” ہے جو انھوں نے سولہ سال کی عمر میں لکھی تھی۔ان کی 12 مثنویوں میں سے 6 کا موضوع خود ان ہی کا عشق ہے۔
مومن کو علم نجوم میں بڑی مہارت حاصل تھی اکثر حساب لگا کر کوئی بات بتاتے تھے اور وہ عموما پوری ہوتی تھی۔تاریخ گوئی میں بھی مومن کو کمال حاصل تھا۔نت نئے انداز کی تاریخیں کہتے تھے جن میں ظرافت بھی پیدا ہوجاتی تھی۔موت سے چند مہینے پہلے مومن گر پڑے تھے۔ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے تھے اس حادثہ کی تعریف کہی جو آخرکار موت کی تاریخ بھی ثابت ہوئی اور ان کے مزار پر کندہ ہے۔
دست و بازو بشکست (یعنی ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے)
مومن کی شاعری کو "مکر شاعرانہ” کا نام ضیاء احمد بدایونی نے دیا تھا۔ان کے ایک شعر کے متعلق غالب نے فرمایا تھا کہ اگر مومن مجھے اپنا یہ شعر دے دیں تو میں ان کو اپنا پورا دیوان دینے کو تیار ہوں۔وہ شعر یہ ہے۔
اسی طرح نیاز فتح پوری نے کہا تھا”اگر میرے سامنے تمام شعرائے متقدمین کے کلام رکھ کر مجھ کو صرف ایک دیوان حاصل کرنے کی اجازت دی جائے تو میں بلا تامل کہہ دونگا کہ مجھے کلیات مومن دے دو باقی سب اٹھا لے جاؤ”اس عبارت سے بھی مومن کی اردو شاعری میں عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بے شک مومن ایک بہت ہی اعلی پائے کے شاعر تھے اور رہتی دنیا تک ہمیشہ ان کا نام زندہ جاوید رہے گا۔
مومن کا منتخب شدہ اشعار ;-
*
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکر اغیار سے ہوا معلوم
حرف ناصح برا نہیں ہوتا
کس کو ہے ذوق تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
امتحاں کیجئے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
آہ طول امل ہے روز فزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
*
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اردو زبان و ادب کی دنیا میں میر تقی میر ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے ان کی استادی کا اعتراف غالب ,ناسخ اور ذوق جیسے قادر الکلام شعراء نے کیا ہے اس سے میر کی شاعرانہ حیثیت اور ان کی ادبی اولیت مسلم ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے اردو غزل کو نیا رنگ و آہنگ اور منفرد لب و لہجہ عطا کیا یہی وجہ ہے کہ شعرائے متاخرین نے انہیں خدائے سخن کے لقب سے ملقب کیا اور مرزا غالب جیسی غزل کی دنیا کا جادوگر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ”
ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
میر تقی میر کے بارے ایک ویڈیو:-
حالات زندگی
میر تقی میر کی پیدائش 1773ء میں آگرہ میں ہوئی تھی ان کے والد کا نام محمد علی تھا اور اپنے زہد و تقوی کی بنا پر علی متقی سے مشہور تھا میر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے دوست سید امان اللہ سے حاصل کی ان کے انتقال کے بعد خود ان کے والد نے ان کی تعلیم و تربیت کی جب میر گیارہ برس کے قریب پہنچے تو ان کے والد بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے یہاں سے میر کی دنیا اندھیری ہوگئی اور ان کی حیات میں حزن و ملال اور درد و الم کے طویل باب کی شروعات ہوئی ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے باپ کے کل ترکہ پر قبضہ کرلیا گیارہ برس کی عمر جو کھیلنے,کودنے ,گھومنے ,ہنسنے اور اسکول و مدرسہ جانے کی عمر ہوتی ہے اس وقت میر غم کا پہاڑ اٹھائے پھرتا رہا بے آسرا،بے سہارا اور تحفظ سے محروم تلاش معاش کے لئے آگرہ سے نکلا اور تن تنہا قافلوں کے ساتھ سفر کرتا ،صعوبتیں جھیلتا ,بد وضع سراؤں میں قیام کرتا اور بچتا بچاتا 1734ء میں دلی پہنچا اس وقت دلی کی تخت پر محد شاہ بیٹھا تھا ہر طرف عیش و عشرت اور شباب و کباب کی خوشبوئیں پھیلی ہوئی تھیں حسینوں اور جمالں کی کثرت تھی ,دلی کے لال قلعہ میں تاج پوشی اور گردن تراشی کے تماشے نے سلطنت مغلیہ کا حال بہت پتلا کر رکھا تھا گویا بادشاہ دلی کی حیثیت شاہ شطرنج سے زیادہ نہ تھی .دلی کی رنگینیوں اور تخت و تاراج کو دیکھ کر میر دنگ رہ گیا اجنبی شہر ,اجنبی لوگ,بےیار و مددگار داغ یتیمی سے رنجور ,عدم تحفظ اور بے سروسامانی کے احساسات سے تھکا ہارا میر محمد شاہی عھد کی دلی میں تلاش معاش کے لئے گھومتا پھرا لیککن جلد ہی ایک نواب کے پاس ملازم ہوگئے نواب صاحب نادر شاہی حملہ 1739ء میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے لیکن گزر اوقت کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو دوبارہ دھلی روانہ ہوئے اور اپنے سوتیلے بھائی کے خالو سراج الدین آرزو کے یہاں ٹہرے سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو بھی درپے آزار ہوگئے ان پے در پے صدمات کی وجہ سے انہیں جنوں کی کیفیت پیدا ہوگئی . میر کا زمانہ بڑا پر آشوب زمانہ تھا ہر چہار جانب محتاجی و تنگدستی اور درد و الم کو سہنے کے بعد تھک ہار کر میر گوشئہ عافیت کی خاطر لکھنؤ روانہ ہوگئے وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا اور میر راحت و آرام کی سانس لینے لگے لیکن کچھ اسباب و عوامل کی بنیاد پر ناراض ہوکر دربار کو خیر آباد کہہ دیئے آخری تین سالوں میں جوان بیٹی اور شریک حیات کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کردیا آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 87سال کی عمر پاکر 1810ء میں اپنے آبائی وطن سے دور لکھنؤ کے آغوش میں ہمیشہ کے لئے سوگیا (تاریخ ادب اردو صفحہ 125) میر کی حیات مبارکہ کے متعلق جانکاری کا سب سے اہم ذریعہ ان کی سوانح عمری "ذکر میر "ہے یہ ان کی بچپن سے لکھنؤ میں قیام کے آغاز کی مدت پر محیط ہے میر نے اپنی زندگی کے کچھ سال دلی میں گزارے اس زمانے میں وہ جس محلہ میں رہتے تھے اسے "کوچہ چلم”کہا جاتا تھا مولانا محمد حسین آزاد اپنی مشہور زمانہ کتاب "آب حیات”صفحہ 289 پر رقمطراز ہے کہ میر تقی میر جب دلی سے لکھنؤ روانہ ہورہے تھے اس وقت معاشی تنگ دستی اور غربت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس گاڑی کا کرایہ بھی نہ تھا مجبورا ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے تو دلی کو خدا حافظ کہا لکھنؤ پہنچے تو انہیں جانکاری ملی کہ یہاں آج ایک شاندار مشاعرہ منعقد ہونے والا ہے میر نے اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرہ میں جاکر شریک ہوگئے ان کی وضع قدیمانہ تھی جب وہ مجلس میں داخل ہوئے تو پورا مجمع ان کی ہیئت کو دیکھ کر کھلکھلا ہنسنے لگا مہر صاحب بیچارے غریب الوطن ,زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف کبارے میں جاکر بیٹھ گئے شمع جب ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی کچھ لوگوں کے قلوب و اذہان میں یہ سوال پیدا ہورہے تھے کہ موصوف کا وطن کہاں ہے ؟میر صاحب نے برجستہ یہ قطعہ کہہ کر غزل طرحی میں شامل کیا,
کیا بود باس پوچھو ہو پورب کےساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کر ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
سب کو حال معلوم ہوا بہت معذرت کی عفو تقصیر چاہی ,کمال کے طالب تھے صبح ہوتے ہوتے پورے شہر میں ہنگامہ مچ گیا کہ میر صاحب تشریف لائے ہو ئے ہیں
میر کا سماج اور دلی کی بربادی
ہر شاعر اپنے سماج اور ماحول کا پھل ہوتا ہے ان کے سامنے وقوع پزیر ہونے والے واقعات ,حادثات ,ان کی ذاتی زندگی میں رونما ہونے والے تجربات اور اس متعلق اس کے تاثرات ہی حقیقت میں ان کی ادبی ذوق و شوق کی تربیت کرنے ان کی شاعری کو جلا بخشنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں سماج اور معاشرے کی الٹ پھیر کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر شاعر اپنی افکار و نظریات کو مختلف رنگ میں رنگ کر ایک خوبصورت غزل تیار کرتے ہیں اور اس طرح ان کی شاعری وقت کی رفتار کے ساتھ بدلتی رہتی ہے .میر تقی میر کا وجود اس دنیا میں ایک ایسے زمانے کے اندر ہوا جو سیاسی ,سماجی ,ملکی اور مراشی اعتبار سے سخت انتشار اور افرا تفری کا دور تھا مغل حکومت دن بدن کنزور ہو رہی تھی جو شخص بھی اپنی ذاتی قابلیت اور ریشہ دوانیوں سے یا اپنے حلیفوں کی مدد سے وزارت اعلی کے منصب پر فائز ہو جاتا در اصل وہی حکمران وقت تھا ہندوستان کے ڈھیر سارے صوبے خودمختار ہو چکے تھے پورا ملک لوٹ مار کا شکار تھا میر قیام دلی کے زمانہ میں لوٹ مار اور قتل و خون کے ایسے بے شمار مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنی ذات پر سہے لٹے پٹے شہروں,کاروانوں اور انسانوں کے یہ منظر میر کی شاعری میں ایک المیہ رنگ پیدا کردیا اس رنگ کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ بعد ازاں وہ علم سے محبت کرتا ہوا نظر آنے لگا اس کی شاعری میں ایک سوگ وار ماتمی لے مستقل طور پر سنائی دینے لگی دلی کی بربادی,عزیزوں اور خاندانوں کی تباہی, آئے دن کے انقلاب ,مرہٹوں,جاٹوں ,درانیوں کی قتل و غارت گیری میر نے اپنی آنکھوں سے دیکھے میر کی شاعری میں خون کے یہ دھبے آج تک نمایاں ہیں ”
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں اسے
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
میر زندگی کے نہایت بھرپور تجربہ کا شاعر تھا ایک ایسا شاعر کہ جس نے اپنے عھد کے کرب ناک مناظر دیکھے وہ ہمارے تہذیبی اور تاریخی حافظے کا شاہد تھا اس نے تاریخ کو نہایت تیزی سے ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا اس عذاب کو اس نے اپنی ہڈیوں سہا وہ تہذیبی زوال اور آشوب کا مورخ بھی تھا اور نوحہ خواں بھی ان کے اشعار پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کا ہر ایک شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع
خون کی ایک بوند ہے
میر کا درد و الم
زندگی کے بارے میں میر کا نقطئہ نظریہ حزنیہ تھا حزن ایک ایسے درد و الم سے عبارت ہے جو اپنے اندر تفکر اور تخلیقی صلاحیتیں بھی رکھتا ہےمیر کا تصور زندگی مایوس کن نہیں صرف اس میں حزن و ملال کا وجود بہت زیادہ ہے مگر یہ حزن و ملال ہمیں زندگی سے نفرت و عداوت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے میر کا کمال فن یہی ہے کہ اس نے کانٹوں پر زندگی بسر کرنے کے بعد بھی زندگی کی بھرپور توانائی کا احساس دلایا ” مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے درد وغم کتنے کیے جمع تو دیوان ہوا
چشم رہتی ہے اب پر آب بہت
دل کو میرے ہے اضطراب بہت
متصل روتے رہیے تو بجھے آتش دل
ایک دو اشک تو اور آگ لگا دیتے ہیں
میر کا تصور غم :-
میر کا تصور غم تخلیقی اور فکری ہے یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا اس کے ہوتے ہوئے میر کی شاعری میں توازن اور ٹہراؤ نظر آتا ہے شکستگی کا احساس نہیں ہوتا اور ضبط ,سنجیدگی اور تحمل ملتا ہے وہ حزن و الم سے دوچار ہونے کے باوجود بھی اسے فرحت و نشاط بنادیتے ہیں میر کی شاعری کو پڑھنے کے بعد ہمارے احساسات و جذبات اور افکار و نظریات میں وہ برداشت اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہا جاتا ہے
ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں نے
خونابہ کشی مدام کی ہے میں نے
یہ محلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے
میر کی دردمندی:-
میر کی شعر و شاعری میں درد مندی حزن و الم کا دوسرا نام ہے دردمندی سے مراد زندگی کے اندر درپیش آنے والے تلخ حقیقتوں کا اعتراف و ادراک اور حتی المقدور ان تلخیوں کو دور کرنے کی سعی و کوشش کا نام ہے درد مندی ان کی حیات مبارکہ کے تضادات سے جنم لیتی ہیں درد مندی کا منبع و مصدر قلب ہے میر کہتے ہیں
آبلے کی طرح ٹھیس لگی پھوٹ ہے
دردمندی میں کٹی ساری جوانی اپنی
نہ درد مندی سے تم یہ راہ چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد
درد مندی کے محرکات
میر کا زمانہ قتل و خون ریزی کا زمانہ تھا ہر طرف فتنہ و فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور اس چیز نے انسانوں کو بے حد متاثر کیا تھا میر اس تباہیبکے محض تماشائی نہ تھے بلکہ وہ خود اس تباہ کن معاشرہ کے ایک فرد تھے جو صدیوں کے لگے بندھے نظام کی تباہی سے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر کر رہ گیا تھا اور اس کو جوڑنا ہمالیہ پہاڑ کو اٹھانے کے مترادف تھا .میر اس سماج کے اثرات شدت سے محسوس کیے ہیں .ان کی غزلوں میں اس تباہی کے نقوش ملتے ہیں .لٹے ہوئے نگروں,شہروں اور اجڑی ہوئی بستیوں کے حالات ,بجھے ہوئے دلوں کی تصویریں ,زمانے کے گرد و غبار کی دھندلاہٹیں,تشبیہوں اور استعاروں کی شکل میں میر کے یہاں موجود ہیں :
روشن ہے اس طرح دل ویراں میں آگ ایک
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہیں چراغ ایک
دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گپا
میرکی بلند حوصلگی
یہ ممکن ہی نہیں کہ میر کو زندگی سے بیزار شاعر کہا جائے کیونکہ ان کا غم دیگر شعراء کے غموں سے مختلف ہے ان کا غم ایک مہذب اور درد مند آدمی کا غم ہے جو زندگی کے تضاد کو گہرے طور پر محسوس کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ درد و الم کے ساگر میں غوطہ زن ہونے کے باوجود بھی میر بے حوصلہ نہیں ہوتے وہ سپاہیانہ دم خم رکھتے ہیں ,فوجی ساز و سامان کے استعاروں میں مطلب ادا کرکے زندگی کا ایسا احساس دلاتے ہیں جس میں بزدلی بہر حال ایک عیب ہے میر کہتے ہیں : -
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا
حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا
میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی
اردو شعر و شاعری کی دنیا میں بےثباتی دنیا کا احساس بہت مشہور و معروف ہے اس موضوع پر لگ بھگ تمام شعراء نے طبع آزمائی کی ہے لیکن خاص طور سے میر تقی میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بہترین اسلوب اور سلجھے ہوئے الفاظ میں ملتا ہے .جس کی اصل وجہ اس عھد کے غیر یقینی اور ہنگامی صورت حال تھے جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں دنیا سے بے ثباتی کے موضوعات پروان چڑھے
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
نمود کرکے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر بلبلا تھا پانی کا
جس سر کو ہے یاں غرور تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
میر کی شاعری میں خلوص,سادگی اور صداقت:
میر کی شاعری میں ایک نہایت ہی اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں فنی خلوص کو پوری صداقت سے لاتے ہیں فنی خلوص کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر زندگی کے حادثات کو کو جس طرح اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ٹھیک اسی طرح بیان کرے میر کی شاعری اس لئے بھی مشہور و معروف ہے کہ اس میں سچائی اور خلوص کے ساتھ ساتھ تمام باتیں بے تکلفی کے انداز میں کہی گئی ہیں میر نے اپنی شاعری میں دوسروں کی طرح صرف تخیل کے گھوڑے نہیں دورائے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کہ میر عوام کے ساتھ شاعر تھے اس کے ارد گرد کی زندگی سے حزن و ملال کے مضامین کے فوارے ابل رہے تھے میر نے انہی مضامین کو بہترین لب و لہجہ اور سادہ الفاظ میں پیش کیا میر کے خلوص و صداقت کا اندازہ ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے
قدم رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم کو میں دکھا لایا
دل مجھے اس گلی میں لے جاکر
اور بھی خاک میں ملا لایا
ابتداء ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
میر کا خطابیہ انداز
میر کے ڈھیر سارے ایسے اشعار ہیں جس میں وہ خطابیہ انداز اختیار کرتے ہیں کبھی وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے شخص سے کبھی ان کا تخاطب بلبل سے ہے تو کبھی شمع و پروانہ سے ان تمام کیفیتوں میں بات چیت اور بے تکلفی کا رنگ بہر حال قائم رہتا ہے چند اشعار بطقر نمونہ ذیل میں درج کئے جارہے ہیں
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
.پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد
ابتدائے عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
میر کا طنز
میر کی شاعری میں طنز در حقیقت ان کی فطرت کی عکاسی ہے جب کوئی جملہ طنز کے ساتھ بولتے ہیں تو اس سے صرف بے تکلفی نہیں جھلکتی بلکہ ایسا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس تجربہ سے گزر چکے ہیں ان کے طنز میں ایک مدہم سی تلخی ہوتی ہے جو پختہ مغزیکی علامت ہوتی ہے ان کے طنز میں غالب کی تیزی کی جگہ ایک عجب پر کیف نرمی ہوتی ہے .
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں میر
کی کام محبت سے اس آرام طلب کو
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دیوانے ہے
میر کی تشبیہات و استعارات
میر نے اپنی شاعری کو زیادہ خوبصورت بنانے کے لئے تشبیہ و استعارے کا بڑے سلیقے سے استعمال کیا ہے یہ تشبیہات مردہ نہیں بلکہ ان کے اندر زندگی دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے میر اپنی زندگی بھر کے حادثات ,واقعات,تجربات اور تاثرات کو پوری صداقت کے ساتھ تشبیہات و استعارت کی شکل دیتا ہے جس میں تصنع یا بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر کی ترنم اور موسیقیت
میر کی شاعری میں غنائیت اور موسیقیت اپنے اندر فنی دلکشی کے بہت سے پہلو رکھتی ہے میر کے انداز کی نغمگی اور ترنم مسلم ہے اور یہی میر کی عظمت کا راز ہے ان کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختلف خیالات کے اظہار کے لئے مختلف بحروں کا انتخاب کرکے نغمگی پیدا کرتے ہیں فارسی کی مروجہ بحروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ میر نے ہندی کے پنگل کو اردو غزل کے مزاج کا حصہ بنا کر ہم آہنگی کی صورت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی شاعری میں بڑی کیف آور اورباثر انگیز غنائیت و موسیقی پیدا ہوتی ہے .
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا
جانے ہے چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ
بہاراں ہے پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد وباراں ہے
میر کی شاعری میں متصوفانہ رنگ
میر کی شاعری کے فکری عناصر میں متصوفانہ رنگ خاص طور پر قابل ذکر ہے ان کے والد اور چچا صوفیانہ افکار و نظریات کے حامل تھے اور رات دن جذب و مستی کی کیفیات میں سرشار رہتے تھے میر نے ان بزرگوں کی صحبت میں چند سال گزارے تھے تو وہ بھلا کس طرح صوفیانہ تجربہ سے الگ رہ سکتے تھے ان کے یہاں تصوف کا تجربہ محض روایتی نہیں ہے یہ رسمی بھی نہیں ہے اس تجربے نے میر کے ذہن و فکر کی تہذیب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں وہ زندگی کو کسی عام انسان کی طرح نہیں دیکھتے ان کی نظر صاف دل صوفی کی نظر ہے
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہاں دیگر تھا
میر کی شاعری میں تصور محبوب
یہ بات صد فیصد صحیح ہے کہ میر نے ایک گوشت پوست کے زندہ و متحرک محبوب سے صرف محبت ہی نہیں بلکہ بھرپور محبت کی تھی اور محبوب سے ان کے احساس جمال قوت تخیل اور تصور حسن پر روشنی پڑتی ہے ان کا محبوب حسن و جمال کی پڑی اور خوبصورتی کا منبع و مصدر ہے میر کا محبوب صرف چاند جیسا ہی نہیں بلکہ جسم خوشبودار اور رنگ و نو کا مجسمہ بھی ہے
ان گل رخوں کی قامت لہکے ہے یوں ہوا
میںجس رنگ سے لچکتی پھولوں کی ڈالیاں ہیں
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
میر کی شاعری میں تصور عشق
میر کے یہاں عشق آداب سیکھاتا ہے محبوب کی عزت و تکریم کا درس دیتا ہے اگرچہ اس کا انجام ہمیشہ دردناک ہوتا ہے پھر بھی میر کو اس عشق سے پیار ہے یہی عشق ان کی زندگی کا اصل مقصد ہے اسی عشق نے ان کی زندگی میں خوشی و مسرت اور حرکت وعمل پیدا کی.میر کے خیال میں زندگی ساری رونق اور چہل پہل اسی عشق کی وجہ سے یے اگر عشق نہ ہوتا تو یہ کارخانہ قدرت بےکار ,خاموش ,بےحرکت اور بے لذت ہوتا تصور عشق کے حوالے سے ان کے نمائندہ اشعار درج ذیل ہیں .
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے
ہم طور عشق سے واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے دل کو کوئی ملا کرے ہے
میر کی شاعری میں احساس برتری
میر کی شاعری کے ڈھیر سارے رنگوں میں سے ایک نہایت ہی اہم رنگ احساس برتری کا رنگ ہے یہ شعر گوئی کا ایک ایسا انداز ہے جس نے تمام شاعروں کو بے حد متاثر کیا ہے اور سارے شاعروں نے اس رنگ میں طبع آزمائی کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن صلاح و فلاح سے ہمکنار نہ ہوسکے اسی لئے میر احساس برتری کو سامنے لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں
کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
خلاصہ کلام
میر تقی میر نے ڈھیر سارے اصناف سخن میں طبع آزمائی کی.ان تمام سخن کو یہاں پہ ذکر کرنا سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہے لیکن ان کے مجموعہ کلام کو سامنے رکھتے ہوئے اتنی بات تو ضرور کہنا چاہونگا کہ مہر تقی میر سرتاج شعرائے اردو ہیں .ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائیگا جیسے سعدی کا کلام فارسی میں اگر دنیا میں ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیاتر کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میر کا نام اس فہرست میں ضرور داخل ہوگا کیونکہ میر نے اپنی تخلیقی قوتوں سے زندگی کا رس نچوڑ کر اسے شاعری کے قالب میں ڈھال دیا ہے اس لئے جب تک اردو زبان و ادب اس دنیا کے اندر پڑھی,لکھی اور بولی جائے گی اس وقت تک لوگوں کے لسان و زبان پر میر کے اشعار رہیں گے .
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین "صنف" سخن ہے۔ غزل توازن میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع اولی میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہے غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے
ചിരപ്രതിഷ്ഠ നേടിയ ദേശാഭിമാന കാവ്യമാണ് ഉർദു ഭാഷയിലെ സാരെ ജഹാൻ സെ അച്ഛാ. കവി മുഹമ്മദ് ഇക്ബാൽ കുട്ടികൾക്കുവേണ്ടിയാണ് ഉർദു കാവ്യലോകത്ത് പ്രബലമായ ഗസൽ ശൈലിയിൽ ഈ കാവ്യം എഴുതിയത്. ഇത്തെഹാദ് എന്ന ആഴ്ചപ്പതിപ്പിൽ 1904 ഓഗസ്റ്റ് 16 ന് ഇതു പ്രസിദ്ധീകരിച്ചു. അതിനടുത്ത വർഷം ലാഹോറിലെ ഗവൺമെൻറ് കോളജിൽ അദ്ദേഹം ഈ കാവ്യം ചൊല്ലുകയും ഇന്ത്യയിലെ ബ്രിട്ടീഷ് ഭരണത്തിനെതിരായ പ്രതിഷേധത്തിന്റെ ഗീതമായി ഇതു മാറുകയും ചെയ്തു. ഇന്നത്തെ ഇൻഡ്യ, പാകിസ്താൻ, ബംഗ്ലാദേശ് എന്നിവ ചേരുന്ന ഹിന്ദുസ്ഥാനെ അഭിസംബോധന ചെയ്യുന്ന ഈ ഗാനം ഈ ദേശത്തെ വാഴ്ത്തുകയും അതേസമയം ദീർഘകാലമായി അതനുഭവിക്കുന്ന കെടുതികളെപ്പറ്റി പരിഭവിക്കുകയും ചെയ്യുന്നു. തരാന-ഇ-ഹിന്ദി (ഉർദു: ترانۂ ہندی "ഹിന്ദുസ്ഥാനിലെ ജനങ്ങളുടെ ഗീതം") എന്ന പേരിലും അറിയപ്പെടുന്ന ഈ ഗീതം 1924-ൽ ബാങ്ഗെ ദരാ എന്ന തന്റെ ഉർദു കവിതാ സമാഹാരത്തിൽ പിന്നീട് പ്രസിദ്ധീകൃതമായി.
ഇക്ബാൽ അക്കാലത്ത് ഗവൺമെൻറ് കോളജിൽ അദ്ധ്യാപകനായിരുന്നു. വിദ്യാർത്ഥിയായിരുന്ന ലാലാ ഹർ ദയാൽ (ഗദ്ദർ പാർട്ടിയുടെ സ്ഥാപകനായ വിപ്ലവകാരി) ഒരു ചടങ്ങിൽ അദ്ധ്യക്ഷനാവാൻ അദ്ദേഹത്തെ ക്ഷണിച്ചു. എന്നാൽ പ്രസംഗം ചെയ്യുന്നതിനു പകരം ഇക്ബാൽ ചെയ്തത് സാരെ ജഹാൻ സെ അച്ഛാ പാടുകയായിരുന്നു. ഹിന്ദുസ്ഥാൻ എന്ന ദേശത്തോടുള്ള അഭിവാഞ്ഛയ്ക്കും മമതയ്ക്കും കാവ്യരൂപം നല്കുന്നതോടൊപ്പം ഈ ഗാനം സാംസ്കാരത്തെ സംബന്ധിക്കുന്ന ഓർമ്മകൾ വിഷാദകാവ്യത്തിന്റെ ഛായയിൽ ആവിഷ്കരിക്കുകയും ചെയ്തു. 1905-ൽ 27 വയസ്സുണ്ടായിരുന്ന ഇക്ബാൽ ജീവിത വീക്ഷണങ്ങളിൽ കാല്പനികമായ നിലപാടുകൾ പുലർത്തുന്ന കാലമായിരുന്നു അത്. ഇന്ത്യൻ ഉപഭൂഖണ്ഡത്തിലെ ഭാവി സമൂഹം വൈവിധ്യം നിലനിറുത്തുന്നതും ഹിന്ദു-മുസ്ലീം സംസ്കാരങ്ങളുടെ ചേരുവയായും അദ്ദേഹം കരുതി.
സാരെ ജഹാൻ സെ അച്ഛാ ഇൻഡ്യയിൽ ഒരു നൂറ്റാണ്ടിലേറെക്കാലമായി ജനപ്രിയ ഗീതമായി തുടരുന്നു. മഹാത്മാഗാന്ധി 1930-കളിൽ യെർവാദാ ജയിലിൽ തടവിൽ കഴിയവേ ഈ ഗാനം നൂറിലേറെത്തവണ പാടിയതായി പറയപ്പെടുന്നു. 1950-ൽ സിത്താർ മാന്ത്രികനായ രവി ശങ്കർ ഈ ഗാനത്തെ ചിട്ടപ്പെടുത്തുകയും ലതാ മങ്കേഷ്കർ ഇതു പാടുകയും ചെയ്തു. ഇതിലെ 1,3,4,6 എന്നീ ഈരടികൾ ഇൻഡ്യയിൽ അനൌദ്യോഗികമായ ദേശീയ ഗാനമായി മാറി. ഇൻഡ്യയിലെ കരസേനയുടെ ഔദ്യോഗിക മാർച്ച് ആയും ഈ ഗാനം അംഗീകരിക്കപ്പെട്ടു. എന്നാൽ പാകിസ്താനിലോ ബംഗ്ലാദേശിലോ ഈ ഗാനത്തിന് പ്രചാരമില്ല.നമുക്കൊരു pdf നോക്കാം